021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بندوق کے شکارکاحکم
78513ذبح اور ذبیحہ کے احکام ذبائح کے متفرق مسائل

سوال

ایسے شکارکئے ہوئے پرندے کے بارے میں کیاحکم ہے جس کوایسی بندوق سے ماراجائے جس کی گولی کی نوک نہ ہو،بلکہ گول ہو،اگرپرندہ کوذبح کرنےسے پہلے اس کی جان نکل جائے توکیاوہ پرندہ حلال ہوگایاحرام؟بندہ نے علماء کرام سے یہی سناہے ایساشکارحرام ہوجاتاہے،ہمارے علاقے کے ایک مکتبہ فکرکےلوگ کہتے ہیں کہ ایساجانور تین دن تک حلال ہے اوراس پروہ حضرات چنداحادیث پیش کرتے ہیں۔اس بارے میں راہنمائی فرمادیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بندوق کی گولی سے کیا ہوا شکار  اگر ذبح سے پہلے مرجائے تو اس کا کھانا جائز نہیں ہوگا، اور اگر گولی سے شکار کرنے کے بعد جانور کو زندہ زخمی حالت میں پالیا اور پھر اس کو  اللہ کا نام لے کر  ذبح کردیا جائے تو اس کو  کھانا جائز ہوگا ، لہٰذا بسم اللہ پڑھ کر چھوڑی ہوئی گولی سے کیا ہوا شکار ذبح سے قبل مر جائے تو اس کا کھانا جائز نہیں ہے۔
یہ حکم عام گولیوں کا ہے، البتہ اگر بندوق کی گولی محدد، نوک دار اور دھاری دار ہو یا نوک دار چھرہ والا کارتوس ہو تو ایسی نوک دار گولی کا شکار حلال ہوگا، لہذا اس پر اگر  اللہ کانام لے کر جانور پر فائر کیا جائے اور گولی لگنے کے بعد  اس جانور پر قابو پانے سے پہلے ہی وہ مرجائے تو اس شکار کا کھانا درست ہوگا۔

یہ کہناایساشکارتین دن تک حلال ہے درست نہیں،احادیث آپ نے لکھی نہیں ہیں،اس لئے ان کاجواب نہیں  لکھاگیاہے۔

حوالہ جات
فی الهداية في شرح بداية المبتدي (ج 5 / ص 229):
: "ولا يؤكل ما أصابته البندقة فمات بها"؛ لأنها تدق وتكسر ولا تجرح فصار كالمعراض إذا لم يخزق، وكذلك إن رماه بحجر، وكذا إن جرحه قالوا: تأويله إذا كان ثقيلا وبه حدة لاحتمال أنه قتله بثقله، وإن كان الحجر خفيفا وبه حدة يحل لتعين الموت بالجرح، ولو كان الحجر خفيفا، وجعله طويلا كالسهم وبه حدة فإنه يحل؛ لأنه يقتله بجرحه، ولو رماه بمروة حديدة ولم تبضع بضعا لا يحل؛ لأنه قتله دقا، وكذا إذا رماه بها فأبان رأسه أو قطع أوداجه؛ لأن العروق تنقطع بثقل الحجر كما تنقطع بالقطع فوق الشك أو لعله مات قبل قطع الأوداج، ولو رماه بعصا أو بعود حتى قتله لا يحل؛ لأنه يقتله ثقلا لا جرحا، اللهم إلا إذا كان له حدة يبضع بضعا فحينئذ لا بأس به؛ لأنه بمنزلة السيف والرمح.
والأصل في هذه المسائل أن الموت إذا كان مضافا إلى الجرح بيقين كان الصيد حلالا، وإذا كان مضافا إلى الثقل بيقين كان حراما، وإن وقع الشك ولا يدري مات بالجرح۔
وفی رد المحتار (ج 1 / ص 29):
قوله: (أو بندقة) بضم الباء والدال: طينة مدورة يرمى بها.
قوله: (ولو كانت خفيفة) يشير إلى أن الثقيلة لا تحل وإن جرحت.
قال قاضيخان: لا يحل صيد البندقة والحجر والمعراض والعصا وما أشبه ذلك وإن جرح، لانه لا يخرق إلا أن يكون شئ من ذلك قد حدده وطوله كالسهم وأمكن أن يرمى به، فإن كان كذلك وخرقه بحده حل أكله، فأما الجرح الذي يدق في الباطن ولا يخرق في الظاهر لا يحل لانه لا يحصل به إنهار الدم، ومثقل الحديد وغير الحديد سواء، إن خزق حل وإلا فلا۔

محمد اویس

دارالافتاء جامعة الرشید کراچی

۲۰/جمادی الاولی ۱۴۴۴ ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب