021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دو طلاق کے بعد رجوع اورپھراسکول جانے کی شرط پر طلاق کا حکم
78031طلاق کے احکامطلاق سے رجو ع کا بیان

سوال

میرے شوہر اشعر اسلم میر( جو اسٹریلیا میں تھا)نے مجھے 2019 میں واٹس ایپ وائس میسج سے پہلی طلاق بھیجی،میرے حج پر جانے سے پہلے اشعر نے فون کے ذریعے اس پہلی طلاق سے رجوع کر لیا، ڈھائی مہینے کے بعد میں واپس اشعر کے پاس آسٹریلیا گئی، میرے واپس آنے کے کچھ ہی ہفتوں بعد اشعر نے مجھے دوسری دفعہ طلاق دی،اشعر نے اس دفعہ بھی طلاق کا اقرار کیا اور طلاق دینے کے ایک ہفتے کے اندر دوبارہ رجوع کیا،اشعر نے مجھے بچوں کے ساتھ پاکستان بھجوایا، پاکستان بھیجنے کے بعد اشعر نے یہ فتوی میسج کیا کہ دو طلاقوں میں سے ایک طلاق نہیں ہوئی،اس لیے کہ حالت حیض میں دی گئی طلاق رجوع کے بعد شمار نہیں ہوتی، بہرحال میں نے اشعر سے کہا کہ میں نے جن علماء سے اپنی پہلی اور دوسری طلاق کے بارے میں پوچھا ہے، انہوں نے یہی کہا ہے کہ مجھے دو دفعہ طلاق ہو چکی ہے اور یہ کہ اشعر محتاط ر ہے کہ اب اگر اس نے مجھے طلاق دی تو میں اس کے ساتھ نہیں رہوں گی۔

۔۔۔۔۔۔اس دوران اس نے دوسری شادی بھی کی،پاکستان میں گهر کا خرچہ بمشکل پورا ہو رہا تھا، ایسے میں اشعر نے زبردستی مجھے بچوں کے اسکول میں جاب کرنے کا کہا،میں نے اسکول میں انٹرویو دیا تو مجھے جاب بھی مل گئی اوراسکول والوں نے مجھ سے دو سال کا کنٹریکٹ سائن کروایا جو کہ اشعر کی اجازت سے میں نے سائن کیا ، اشعر کام نہیں کر رہا تھا اور وہ گھر میں اکیلا ہوتا تھا اور فون پر اپنی دوسری بیوی کے ساتھ مصروف رہتا تھا، ایسے میں اس کے اپنی بیوی کے ساتھ تعلقات خراب ہو گئے،اورطلاق ہوگئی، ان حالات میں اشعر نے مجھے کہا کہ میں اب اسکول میں جاب نہیں کرسکتی اور جب تک میں اس کی دوسری بیوی کے ساتھ تعلقات ٹھیک نہیں کرواؤں گی یا اس کو ایک اور بیوی نہیں لا کر دوں گی تو وہ میری زندگی کو عذاب بنا دے گا اور ایک ہفتے تک لگاتار روزیہی کہتا تھا کہ میرے تھوڑے سے دن رہ گئے ہیں اور وہ مجھے بہت جلد تیسری طلاق دے کر فارغ کر دے گا۔ ایک دن اسی طرح ہمارا جھگڑا ہوا اور اس نے کہا کہ میں قسم کھاتا ہوں کہ میں تمہیں گاڑی نہیں دوں گا۔ اگلے دن میں نے اس سے معافی مانگی، لیکن اس نے مجھے اور بچوں کو اسکول جانے کے لیے گاڑی نہیں دی،میں اور بچے دو دن ٹیکسی پر سکول جاتے رہے تیسرے دن صبح اشعر نے مجھے دھمکی دی کہ آج میں اس کو گھر سے نکل کر دکھاؤں اور کوئی سکول نہیں جائے گا۔ میں نے اپنے سسر کو فون کیا کیونکہ میرے والدین اس وقت اسلام آباد میں نہیں تھے،میرے سسر نے مجھے کہا کہ آج میں اسکول سے چھٹی کر لوں اور بچوں کو بھی نہ بھیجوں اور وہ شام کو گھر آئیں گے ‌۔ جب وہ شام کو آئے تو انہوں نے اپنے بیٹے سے بات کی کہ پہلے تم نے اسے جاب کی اجازت دی ہے اور اب تم یہ اجازت ختم کر رہے ہو، یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے،کیونکہ اس نے اسکول والوں سے دو سال کا وعدہ کیا ہے اور اور تم نے پہلے بھی اسی طرح کئی دفعہ کیا ہے کہ کسی چیز کی اجازت دیتے ہو اور پھر اپنی اجازت واپس لے لیتے ہو۔ اشعر کا اس کے والد کے ساتھ اس بات پر خوب جھگڑا ہوا۔ جب میرے سسر نے کہا کہ میں کومل کو اپنے گھر لے جاتا ہوں اور میں اس کو وہاں ہی رکھوں گا اور میں اس کو جاب پر بھی بھیجوں گا تو اشعر نے کہا" اگر یہ جاب پر جائے گی تو میں اس کو طلاق دے دوں گا۔" وہ یہ بات کئی دفعہ کہتا رہا اور اس نے یہ بھی کہا کہ" اگر یہ جاب پر گئی تو اس کو طلاق ہے ۔"یہ دونوں جملے اس نے اپنے گھر میں بھی کئی دفعہ کہے اور جب میرے سسر مجھے اپنے گھر لے گئے تو اس گھر میں بھی اس نے کئی دفعہ یہ جملے دہرائے ، میں اپنے سسر کے گھر دس دن رہی، میرے وہاں قیام کے دوران میں اپنے سسر کے گھر سے جاب پر نہیں گئی، دس دن کے بعد میرے سسر نے میرے نہ چاہنے کے باوجود مجھے اشعر کے ساتھ واپس بھیج دیا۔ گھر آ کر میں نے اشعر سے دوبارہ پوچھا کہ اس نے طلاق کے لیے کیا لفظ استعمال کیے تھے۔ میں نے اس کو بتایا کہ جب وہ غصے میں بول رہا تھا تو میں نے بہت اچھے طریقے سے یہ دونوں جملے سنے تھے، اس نے مجھے کہا کہ مجھے اس بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ،کیونکہ کہ وہ شرط طلاق تھی اور وہ اس کا کفارہ دے دے گا، مزید اس نے یہ بھی کہا کہ اگر طلاق ہوئی بھی ہے تو پچھلی دو طلاقوں میں سے اس کے نئے فتوے کے مطابق ایک طلاق ہوئی ہے،اس لئے مجھے فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ حال ہی میں وہ یہ بھی کہہ رہا ہے کہ اس کے ان الفاظ کا مطلب اگر یہ جاب پر جائے گی تو اس کو طلاق ہے یا اگر یہ جاب پر پر گئی تو میں اس کو طلاق دوں گا یہ تھا کہ اگر میرے سسر مجھے اپنے گھر سے جاب پر بھیجتے تو مجھے طلاق ہو جاتی ۔ اب میرے اپنے شوہر کے گھر واپس آنے کے بعد اپنے شوہر کی اجازت سے جاب پر جانے سے طلاق نہیں ہوئی۔ میں اگلے دن جاب پر چلی گئی، لیکن ایک ہفتے کے اندر اندر اشعر اپنی باتوں سے دوبارہ پھر گیا،چونکہ اس وقت تک کوئی بھی یہ یقین نہیں کرتا تھا کہ اشعر کا میرے ساتھ رویہ ٹھیک نہیں ہے تو میں نے اشعر کی باتوں کو ریکارڈ کیا ۔ جب اشعر کو پتہ چلا کہ میں نے اس کو ریکارڈ کیا ہے اور اب اس کا سچ کھل جانے گا تو اس نے مجھ سے فون کھینچنے کے لیے مجھے پورے زور سے دھکے دیئے اور گرایا اور فون لے کر سب ڈیلیٹ کر دی، میں اپنے والدین کے گھر آ گئی اور نومبر ٢٠٢١ سے میں اشعر کے ساتھ نہیں رہ رہی ہوں، طلاق کے اس مسئلہ کی تحقیق کرنے کے بعد میں عدالت کے ساتھ اپنی طلاق یا خلع رجسٹر کروانا چاہتی ہوں، میرا مہر ساڑھے بارہ تولے سونا ہے، اس کے علاوہ مجھے ولیمے پر آٹھ تولہ سونا تحفے میں ملا تھا، اس سونے میں سے سے 18 تولے سونا میرے شوہر کے پاس ہے، جو اس نے اپنے کاروبار کے لیے مجھ سے لیا تھا-،باقی ڈھائی تولہ سونا جب میں اپنے سسرال میں تھی تو وہاں سے چوری ہو گیا تھا، اس چوری میں میرے والدین کی طرف سے دیا گیا زیور بھی شامل تھا،میں نے اس کے علاوہ اشعر کو مختلف موقعوں پر پیسے بھی دیے ہیں اور کئی موقعوں پر اس نے زبردستی مجھ سے میرے پیسے لیے ہیں،میرے پیسے مہر اور ولیمے کا زیور سب اشعر کے پاس ہیں اور وہ یہ چاہتا ہے کہ میں یہ سب اس کو معاف کر کے اس سے خلع لوں۔ برائےمہربانی اس مسئلہ پر روشنی ڈالیں ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر آپ کا بیان واقع کے مطابق ہے تو جب اس نے دو دفعہ طلاق دے دی ہے اور تیسری دفعہ طلاق کے بارے میں بھی  آپ کو الفاظ کے سننے کا یقین ہے اور وہ انکار بھی نہیں کرتا، بلکہ اپنے الفاظ کا غیر معتبر مطلب بیان کرتا ہے تو ایسی صورت میں اسکول جانے سے تیسری طلاق بھی واقع ہوچکی اور اس طلاق معلق کےبارے میں شوہر کی اجازت کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا،لہذا صورت مسؤولہ میں  آپ دونوں کے درمیان حرمت مغلظہ ثابت ہوچکی ہے، اب رجوع نہیں ہوسکتا اور موجودہ صورت میں دوبارہ نکاح بھی نہیں ہوسکتا،عدالت سے طلاق کی ڈگری لیناشرعا ضروری نہیں، تاہم آپ اپنے قانونی تحفظ کے لیے ڈگری لینا چاہیں تو اس میں شرعا کوئی حرج نہیں، تاہم یہ شرعی خلع نہیں ہوگا، لہذا اس خلع کے لیے شوہر کی طرف سے مہر یا دیگر  قرض سوناوغیرہ کی معاف کرنے کی شرط لگانا شرعاجائز نہیں،اس پر بہر حال یہ لازم ہے کہ آپ کا مہر اور دیگر واجب الاداء سونا وغیرہ آپ کو واپس کرے۔

باقی آپ کے شوہر کا حاصل کردہ فتوے کا یہ حوالہ کہ"حالت حیض میں دی گئی طلاق رجوع کے بعدشمار نہیں ہوتی۔"درست نہیں،چنانچہ صحیح بخاری میں امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے باب قائم فرمایا ہے کہ "حائضہ کو دی گئی طلاق شرعا معتبر ہے۔" اور اس کے تحت حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی  صحیح روایت بھی مذکور ہے، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رجوع کرنے کا حکم فرمایا جو وقوع طلاق کی دلیل ہے اورمزیدحضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے اس طلاق کے شمار کئے جانے کی تصریح بھی منقول ہے۔

حوالہ جات
صحيح البخاري (7/ 41)
باب إذا طلقت الحائض تعتد بذلك الطلاق
حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا شعبة، عن أنس بن سيرين، قال: سمعت ابن عمر، قال: طلق ابن عمر امرأته وهي حائض، فذكر عمر للنبي صلى الله عليه وسلم فقال: «ليراجعها» قلت: تحتسب؟ قال: فمه؟ وعن قتادة، عن يونس بن جبير، عن ابن عمر، قال: «مره فليراجعها» قلت: تحتسب؟ قال: أرأيت إن عجز واستحمق،
حدثنا أبو معمر، حدثنا عبد الوارث، حدثنا أيوب، عن سعيد بن جبير، عن ابن عمر، قال: «حسبت علي بتطليقة»

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۲۹ربیع الاول۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب