021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شوہرخلع پرراضی نہیں،نکاح باقی رکھنا چاہتاہے،لیکن بیوی نےخلع کافیصلہ کروالیا توکیاحکم ہے؟
78608طلاق کے احکامخلع اور اس کے احکام

سوال

سوال:بیان کرتا ہوں کہ میرا نام عثمان علی ولد یت محمد طفیل ،مستقل پتہ ۔باہترڈاکخانہ خاص ،تحصیل فتح جنگ ،ضلع اٹک ،شناختی کارڈ نمبر۔-1 37102-4817066 اور رابطہ نمبر۔ 0315-2299330 ہے۔

(1)  میں حلفاََ بیان کرتا ہوں کہ میرا نکاح مُسماۃ شمسہ کنول دُختر طالب حُسین (مرحوم) سکنہ مُحلہ وَڈی بَن، فتح جنگ شہر ،ضلع اٹک ،شناختی کارڈ نمبر۔ 37102-9325833-0  سے بتاریخ ۔15-05-2012کو طے پایا، جس کے بطن سے مورخہ۔ 21-07-2013کو ایک بیٹی کی پیدائش ہوئی جس کا نام نُورالعین ہے ۔

(2) مورخہ۔ 20-07-2014کو ہم دونوں میاں بیوی کے درمیان کسی معمولی بات پر جھگڑا ہوا ،جس کی وجہ سے میری بیٹی سمیت میری بیوی کو اس کابڑا بھائی نصیر احمد اپنے گھر فتح جنگ شہر لے گیا ۔

(3) مورخہ ۔22-09-2014 کو میری بیوی نے بعدالت جناب ثوبیہ احمد ترمذی صاحبہ (جج /فیملی کورٹ ) فتح جنگ ،ضلع اٹک میں میرے خلاف تنسیخ نکاح بر بنائے خلع اور بیٹی کیلئے ماہانہ خرچے کا دعویٰ دائر کر دیا ،جس کا جواب دیتے ہوئے میں نے آباد کاری یعنی (گھر بسانے ) کا دعویٰ دائر کر دیا ۔

(4) مورخہ۔ 13-02-2015 کو مذکورہ عدالت نے ہر دو فریقین کا موقف معلوم کرنے کیلئے بیانات قلمبند کروا کر دستخط کروائے ۔(فریق اول )مُسماۃ شمسہ کنول نے اپنے بیان میں مجھ پر یہ الزام لگایا کہ ’’دوران آبادکاری میرے شوہر کا رویہ میرے ساتھ انتہائی ناروارہا ۔بات بات پر لڑائی جھگڑا ،مار پیٹ کرتا رہا ۔میری بچی (نا بالغہ) کو بھی مارنے سے دریغ نہ کرتا تھا، جس کی بناء پر مجھے اس سے شدید نفرت ہوگئی ہے ،اس لیے اب میرا شوہر کے ہمراہ رہنا ممکن نہیں ہے لہٰذا میری اِستدعاہے کہ مجھے دعویٰ تنسیخ نکاح بربنائے خُلع کی  ڈگری جاری کردی جائے"۔مذکورہ الزام کوعدالت میں سچ ثابت کرنے کیلئے مُسماۃ شمسہ کنول نے کوئی گواہ یا شہادت پیش نہ کی اور( فریق دوم )یعنی میں نے یہ یک جملہ بیان قلمبند کروایا کہ’’ میں مدعیہ کو آباد کرنا چاہتا ہوں ‘‘۔

(5) مورخہ۔ 19-02-2015 کو مذکورہ عدالت نے یونین کو نسل نمبر۔35، فتح جنگ II، ضلع اٹک کوایک تحریری حکم نامہ جاری کر کے ہمارا نکاح ختم کروا دیا اور مجھ پر بیٹی کے لئے 3000/- روپے ماہوار خرچہ مقرر کر دیا جو کہ میں باقاعدگی سے ادا کرتا رہا ۔

(6)مورخہ۔ 21-09-2015 کوعدالتی حکم نامہ کے مطابق مذکورہ یونین کونسل کی طرف سے ہر دو فریقین کو بذریعہ نوٹس طلبی، تین مرتبہ بلوائے جانے اور بیانات قلمبند کروائے جانے کے بعد خلع کے سرٹیفیکیٹ جاری کردئیے گئے ۔

(7) مورخہ ۔05-12-2015 کو مُسماۃ شمسہ کنول نے بعدالت جناب شہزا د احسان بٹ (گارڈین جج) فتح جنگ ،ضلع اٹک کے پیش ہوکر اپنی رضامندی سے ایک تحریری اقرار نامہ جمع کروایا ،جس کے مطابق بیٹی نور العین (نابالغہ ) کی کفالت اور دیکھ بھال میرے حوالے کر دی،اس کےبعد

(8) مورخہ۔18-12-2016 کو مُسماۃ شمسہ کنول نے مُسمی مہتاب ظفر ولد محمد ظفر اللہ خان، سکنہ پریم کوٹ ،تحصیل و ضلع حافظ آباد ،شناختی کارڈ نمبر۔ 34301-5939273-7 سے دوبارہ نکاح کروا لیا ۔ دونو ں تا حال اکٹھے رہ رہے ہیں ۔

(9) مورخہ ۔08-11-2022کو(ریکارڈ کیپر )میونسیپل کمیٹی ،فتح جنگ ،ضلع اٹک سے مُسماۃ شمسہ کنول کے دوسرے نکاح نامہ نمبر ۔09/18-12-2016کی مصدقہ کاپی ،رجسٹر ڈائری نمبر ی۔371/08-11-2022 حاصل کی گئی، جس کے کالم نمبر 05 اور 05(الف )میں مذکوریہ نے جھوٹ اور غلط بیانی کرتے ہوئے دیدہ و دانستہ طور پر اپنے آپ کو کنواری ظاہر کیا ہوا ہے ۔جبکہ مذکورہ( دلہن) کی طرف سے مقرر وکیل اور وکیل کے تقررکے گواہان سمیت نکاح خواں اور نکاح رجسٹرار کا کام کرنے والے ،وہ افراد ہیں جو میرے اور مسماۃ شمسہ کنول کے پہلے نکاح نامہ نمبر۔28/15-05-2012 میں بھی بلا شبہ موجود تھے ۔ دونوں نکاح ناموں کا مطالعہ کرنے کے بعد مذکورہ فعل کی تصدیق باآسانی کی جا سکتی ہے۔

(10) صورت حال بالا کوسچ ثابت کرنے کے لئے متعلقہ(سابقہ)ریکارڈ بطور وجہ ثبوت ہمراہ بیان ہذا پیش ِ خدمت ہے۔جناب عالیٰ !  میر ا سوال یہ ہے کہ شریعت مُطہرہ کے مطابق کیا مُسماۃ شمسہ کنول کا مجھ سے نکاح ختم ہو چُکا؟اور میرے بعد کسی دوسرے مرد سے ہونے والا نکاح شرعادرست ہوایانہیں ؟ تحریر ی جواب سے مطلع فرمائیں !

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

خلع میں شوہرکی طرف سےرضامندی شرعاضروری  ہوتی ہے،صورت مسئولہ میں چونکہ شوہرکی رضامندی نہیں،بلکہ شوہرکےبقول عدالت کی طرف سےبھیجےگئےنوٹسزکےجواب میں یہی لکھ کربھیجاگیاکہ میں مدعیہ کو آبادکرناچاہتاہوں،لہذاعدالت کی طرف سےجاری کیاگیاخلع کافیصلہ شرعامعتبرنہیں،بلکہ یہ یک طرفہ فیصلہ شمارہوگا،شرعااس طرح کےفیصلےکااعتبارنہیں،مسماۃ شمسہ کنول سےآپ کاسابقہ نکاح برقرارہے،لہذامسماۃ شمہ کنول کادوسرانکاح شرعاباطل ہے،اس پرلازم ہوگاکہ جلدازجلد وہاں سےعلیحدگی اختیارکرے۔

ایک دفعہ شادی ہونےکےباوجوداپنےاپنےآپ کوکنواری ظاہرکرنابہت بڑاگناہ ہے،قرآن وحدیث میں جھوٹ اوردھوکہ دینےپربہت وعیدیں آئی ہیں،اس لیےتوبہ واستغفارلازم ہوگا،جوحضرات پہلےنکاح میں تھے،اس کےباوجودبھی انہوں نےدوسرےنکاح میں دولہن کوکنوارالکھوایایہ بھی گناہ میں برابرکےشریک ہوں گے۔

موجودہ صورت میں چونکہ سابقہ نکاح برقرارہےاوردوسرانکاح منعقدنہیں ہوا،لہذاعورت کےلیےدوسرےشوہرکےساتھ رہناجائزنہیں،اس پرلازم ہےکہ جلدازجلداس سےعلیحدہ ہوجائے،علیحدہ ہونےکےبعدآخری دفعہ ہمبستری کےوقت سےتین حیض عدت گزارلےتواس کی عدت   پوری ہوجائےگی۔اس کےبعداس  کواختیارہےیاتوپہلےشوہرکےساتھ ہی ازدواجی تعلقات برقراررکھے،یاپھرپہلےشوہرسےطلاق یاخلع( جوشرعامعتبربھی ہو)لےکردوسرےشوہرسےدوبارہ عقدجدیدکےساتھ نکاح کرلے۔

حوالہ جات
قال اللہ تعالی فی سورۃ البقرة آیت  229 :
فان خفتم ألایقیماحدوداللہ فلاجناح علیہما فیماافتدت بہ۔
" الھندیة"1  /488 :
اذاتشاقا الزوجان وخافاأن لایقیما حدوداللہ فلابأس بأن تفدی نفسہا منہ بمال یخلعہا بہ۔
"رد المحتار3/ 439:
الخلع (هو) لغة الإزالة، وشرعا كما في البحر (إزالة ملك النكاح المتوقفة على قبولها بلفظ الخلع أو ما في معناه).وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول۔
"زادالمعاد" 2/238 :
وفی تسمیتہ صلی اللہ علیہ وسلم الخلع فدیۃ دلیل علی أن فیہ معنی المعاوضۃ ولہذااعتبرفیہ رضاالزوجین ۔
"ردالمحتارعلی الدرالمختار" 12/109 :
وشرطہ کالطلاق (وھواھلیة الزوج وکون المراةمحلاللطلاق منجزا،اومعلقاعلی الملک،امارکنہ فھوکمافی البدائع اذاکان بعوض الایجاب والقبول لانہ عقد علی الطلاق بعوض ۔
"أحكام الأحوال الشخصية في الشريعة الإسلامية 165:
وأما القاضي فلا يطلق الزوجة بناء على طلبها إلا في خمس حالات: التطليق لعدم الإنفاق، والتطليق للعيب و التطليق للضرر، والتطليق لغيبة الزوج بلا عذر، والتطليق لحبسه.
"الهندية " 6 / 496:                                    
لا يجوز للرجل أن يتزوج زوجة غيره وكذلك المعتدة ، كذا في السراج الوهاج سواء کانت العدۃ عن طلاق اووفاۃ اودخول  فی نکاح فاسد اوشبہۃ نکاح .کذافی البدائع ۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع"/268:
"( فصل ) : ومنها أن لاتكون منكوحة الغير، لقوله تعالى : { والمحصنات من النساء } معطوفًا على قوله عز وجل : { حرمت عليكم أمهاتكم } إلى قوله : { والمحصنات من النساء } وهن ذوات الأزواج ، وسواء كان زوجها مسلمًا أو كافرًا"

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی

25/جمادی الاولی   1444ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب