021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تقسیم میراث کامسئلہ
75055میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

میرےوالدصاحب کاانتقال 2003میں ہوا ،ان کی پہلی بیوی کا انتقال ان سےپہلے ہوچکاتھا،پہلی بیوی سےایک بیٹاتھاجس کاانتقال چندمہینےپہلےہواہے،میں دوسری بیوی سےہوں،ہم جس گھرمیں رہتےہیں ،یہ ہمارےوالد صاحب کا ہے، اگرہم اس گھرکوبیچناچاہیں توکیااس گھرکاحصہ پہلی بیوی کاجوبیٹاہے،اس کےبچوں کوبھی ملےگایانہیں ؟ اگر ملے گا تو کتنا ملےگا؟جبکہ ہم نےاس گھرپرکنسٹرکشن بھی بہت سی کی ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

میت کی زندگی میں جن ورثاء کا انتقال ہوجائےانہیں وراثت میں شریک نہیں کیاجاتاالبتہ وہ ورثاءجومیت کے فوت ہونے کےبعدانتقال کرجائیں، ان کومیت کی وراثت میں سےحصہ دیاجاتاہے اوران کےحصےآگےورثاءمیں منتقل کیے جائیں گے۔

صورت مسئولہ میں پہلی بیوی سےجوایک بیٹاہےاس کاانتقال میت کےفوت ہونے کےبعدہواہے،لہذا اسےحصہ دیا جائے گا اوراس کا حصہ آگےاس کی اولادمیں منتقل ہوگا،باقی یہ کہ اس کی اولاد کو کتنا ملے گاتو اس حوالےسےمرحوم کے ترکےمیں کل آٹھ حصےبنائےجائیں گے،جن میں سےآٹھواں1/8 حصہ بیوی کاہوگا،باقی سات حصے دو بیٹوں کےدرمیان برابر تقسیم ہوں گے،گویاہربیٹے کوساڑھےتین حصےملیں گے۔

فیصدکےاعتبارسےآپ کےوالد (مرحوم  )کاترکہ ورثاءمیں یوں تقسیم کیاجائےگا:

نمبرشمار

ورثہ

عددی حصے

فیصدی حصے

1

بیوی

1

12.5%

2

پہلی  بیوی(مرحومہ) سےبیٹا

3.5

43.75%

3

دوسری بیوی سےبیٹا

3.5

43.75%

 

مجموعہ

8

100

 

پہلی بیوی سےبیٹےکوجو43.5%فیصدملاہےوہی اس کی اولادمیں شریعت کےمطابق تقسیم کیاجائےگا۔

 گھرمیں تعمیراتی کام وغیرہ کےحوالےسے،اگر آپ نےمعاہدہ کرکےدیگروارثین کےحصہ کا پیسہ بطور قرض لگایا تھا تو ہر ایک سے اپنا قرض وصول کرسکتےہیں،اور اگر تبرعا لگایاتھا تو یہ آپ  کی طرف سے دیگر وارثین پرتبرع واحسان ہوگا ، اسی طرح اگردیگر وارثین سے معاہدہ  کیےبغیرآپ نےمحض اپنی مرضی سے کام کروایا تو اس صورت میں بھی آپ کی طرف سے تبرع واحسان ہوگا،بہر صورت متروکہ مکان کی کنسٹرکشن کروانے کی وجہ سےکسی کے حصہ وراثت میں کوئی کمی زیادتی نہ ہوگی ؛ البتہ قرض کی صورت میں آپ کو دیگر وارثین سے اپنا قرضہ وصول کرنے کا حق ہوگا۔

حوالہ جات
قال اللہ تبارك وتعالي:
ﵟوَلَهُنَّ ٱلرُّبُعُ مِمَّا تَرَكۡتُمۡ إِن لَّمۡ يَكُن لَّكُمۡ وَلَدٞۚ فَإِن كَانَ لَكُمۡ وَلَدٞ فَلَهُنَّ ٱلثُّمُنُ مِمَّا تَرَكۡتُمۚ مِّنۢ بَعۡدِ وَصِيَّةٖ تُوصُونَ بِهَآ أَوۡ دَيۡنٖۗﵞ [النساء: 12]. 
«المبسوط للسرخسي» (29/ 146):
ولا مزاحمة بين العصبات وأصحاب الفرائض،ولكن أصحاب الفرائض مقدمون فيعطون فريضتهم، ثم ما بقي للعصبة قل، أو كثر.
«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (6/ 762):
والمستحقون للتركة عشرة أصناف مرتبة كما أفاده بقوله (فيبدأ بذوي الفروض) أي السهام المقدرة وهم اثنا عشر من النسب ثلاثة من الرجال وسبعة من النساء واثنان من التسبب وهما الزوجان (ثم بالعصبات) أل للجنس فيستوي فيه الواحد والجمع وجمعه للازدواج (النسبية) لأنها أقوى (ثم بالمعتق) ولو أنثى وهو العصبة السببية۔۔۔۔الخ.
«مجلة الأحكام العدلية» (ص206):
(المادة 1073) تقسيم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابهم بنسبة حصصهم
«مجلة الأحكام العدلية» (ص250):
المادة (1309) إذا عمر أحد الشريكين الملك المشترك بإذن الآخر وصرف من ماله قدرا معروفا فله الرجوع على شريكه بحصته أي أن يأخذ من شريكه مقدار ما أصاب حصته من المصرف.

عبدالقدوس

دارالافتا ء،جامعۃالرشید کراچی

27جمادی الاولی ۱۴۴۳ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالقدوس بن محمد حنیف

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب