021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تین ماہ کی ایل سی کھلوانے پر مارک اپ کون ادا کرے گا؟
78681خرید و فروخت اور دیگر معاملات میں پابندی لگانے کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

ہماری کمپنی اپنا مال ایکسپورٹ کرتی ہے اور اس کی رقم ڈی پی کی صورت میں ملتی ہے، یعنی بینک میں کاغذات جمع کروانے پر خریدار کی طرف سے رقم مل جاتی ہے، کچھ دنوں پہلے ہماری کمپنی نے مال ایکسپورٹ کیا، خریدار کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا توکمپنی نے ایکسپورٹ کے کاغذات جمع کروانے کے بعد پیسے لے لیے، اس کے ٹھیک دو دن بعد خریدار نے نوّے (90) دن کی ایل سی بھیج دی، اب بینک کا کہنا یہ ہے کہ آپ کو تین ماہ یعنی نوے دن کا مارکپ اپ دینا پڑے گا، اب نہ چاہتے ہوئے بھی سود دینا پڑے گا، اب آپ بتایے کہ میرے لیے کیا حکم ہے؟ کیا یہ سود دینا جائز ہے اور یہ سود کون دے گا؟ خریدار یا فروخت کنندہ!

وضاحت: سائل نے بتایا کہ بینک ڈی پی پر پندرہ دن تک کوئی مارک اپ نہیں لیتا، کیونکہ پندرہ دن کے اندر رقم کی ادائیگی ہو جاتی ہے،لیکن اس مرتبہ چونکہ خریدار نے دد دن بعد ایل سی کھولنے کے کاغذات بھیج دیے، جس کا مطلب یہ ہے کہ خریدار تین ماہ تک ادائیگی کرے گا، اس لیے بینک نے وصولی کی گئی رقم پر مارک اپ لگا دیا جو تقریباً آٹھ لاکھ روپیہ بنتا ہے۔ خریدار کے پاس دس دن تک مال پہنچ جائے گا۔ اس کے بعد ہم اس کو رقم کی ادائیگی پر مجبور کر سکتے ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

    قرآن وسنت میں سود دینے اور لینے سے متعلق بہت شدید وعیدیں وارد ہوئی ہیں، یہاں تک کہ قرآن کریم کی ایک آیت میں اللہ تعالیٰ نے سودی کاروبار کرنے والوں سے اعلان جنگ فرمایا ہے، اسی طرح حدیثِ پاک میں سود دینے والے، سود  لینے والے، سودی معاملے کو لکھنے والے اور سودی معاملے پر گواہ بننے والے سب پر لعنت وارد ہوئی ہے۔  

اس لیے بہتر تو یہ تھا کہ آپ پہلے خریدار سے بات کر لیتے، تا کہ معلوم ہو جاتا کہ وہ رقم کب ادا کرے گا؟ اور پھر رقم کی ادائیگی میں تاخیر کا علم ہونے پر آپ بینک سے ڈی پی کے ذریعہ رقم نہ نکلواتے، بلکہ قرآن کی ترغیب پر عمل کرتے ہوئے خریدار کو تین ماہ کی مہلت دیتے، لیکن اب چونکہ معاملہ ہو چکا ہے، اس لیے اب آپ خود یا خریدار کے ذریعہ جلد از جلد بینک کو رقم ادا کرکے ایل سی کا معاملہ ختم کرائیں، تاکہ کم از کم سود دینا پڑے، نیز سود کی ادائیگی پر اللہ تعالیٰ سے سچے دل سے توبہ واستغفار بھی کریں اور آئندہ کے لیے اس طرح کے فعل سے مکمل اجتناب کریں۔

حوالہ جات
القرآن الكريم[البقرة: 278 - 280]:
{ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (278) فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ (279) وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ}
مسند أحمد ت شاكر (4/ 43، رقم الحديث:3809) دار الحديث – القاهرة:
حدثنا حَجَّاج أنبأنا شريك عن سماك عن عبد الرحمن ابن عبد الله بن مسعود عن أبيه عن النبي - صلى الله عليه وسلم - قالَ: "لعن الله اكل الربا، وموكله، وشاهديه، وكاتبه"

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

5/جمادى الاخری 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب