021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دینی کتابوں کی طرف پاؤں پھیلانے کاحکم ؟
78653متفرق مسائلمتفرق مسائل

سوال

ہمارے مدرسہ میں چھٹی کے وقت طلبہ اپنی کتابیں کمرہ ہی میں ایک طرف کرکے میزوں پررکھ دیتے ہیں ،اور کمرہ میں سونے کے دوران بعض طلبہ کے پاؤں ان کتابوں کی طرف ہوتے ہیں ، کیا طلبہ کا اس طرح کتابوں کی طرف پاؤں پھیلانا درست ہے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

دینی علوم پر مشتمل کتابیں اگر پاؤں کے بالکل سامنے نہ ہوں،  بلکہ پاؤں سے اونچی رکھی ہوئی ہوں،یا بہت دور ہوں تو اس سمت کی طرف پاؤں پھیلانا جائز ہے، اور اگر پاؤں کے بالکل سامنے ہوں تو ان کی طرف پاؤں پھیلاناکسی شرعی عذر کے بغیر مکروہ ہے۔

حوالہ جات
کرہ مد رجلیہ فی نوم أوغیرہ إلیھا أی عمدا لأنہ إساءۃ أدب أو إلی مصحف أوشیٔ من الکتب الشرعیۃ إلا أن یکون علی موضع مرتفع عن المحاذاۃ فلا یکرہ  ،أی عمدا  أی من غیر عذر أما بالعذر أو السھو فلا۔ (لأنہ إساءۃ أدب) أفاد أن الکراھۃ تنزیھیۃ لکن قدمناہ عن الرحمتی ……أنہ سیأتی أنہ بمد الرجل إلیھا ترد شھادتہ قال وھذا یقتضی التحریم۔(مرتفع ) ظاھرہ لوکان الارتفاع قلیلا۔ قلت أی بما تنتفی بہ المحاذاۃ عرفا … والظاھر أنہ مع البعد الکثیر لاکراھۃ مطلقا . ( الدرالمختار مع ردالمحتار 1 /255)
مد الرجلين إلى جانب المصحف إن لم يكن بحذائه لايكره، وكذا لو كان المصحف معلقاً في الوتد وهو قد مد الرجل إلى ذلك الجانب لايكره، كذا في الغرائب . ( الفتاوى الهندية :5 / 322)

محمدادریس

دارالافتاء،جامعۃ الرشید، کرچی

7/جماد ی الثانی /1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد ادریس بن محمدغیاث

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب