021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نہر سے ملنے والی لکڑی کا حکم
78754گری ہوئی چیزوں اورگمشدہ بچے کے ملنے کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

مفتی صاحب ہمارا گھر نہر کے بالکل قریب ہے  ،ہمیں گھر میں جلانے کے لیے لکڑی کی ضرورت پڑتی ہے۔میرا سوال یہ ہے کہ جو لکڑی نہر میں پانی کے ساتھ بہہ کر آجاتی ہے اس کا کیا حکم ہے، کیا اس کا مالک تلاش کر کے اس تک پہنچانا ضروری ہے یا ہم خود استعمال کر سکتے ہیں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ایسی لکڑی جو پانی میں بہہ کر آجائے اور اس کا مالک معلوم نہ ہو،اگر وہ زیادہ مالیت کی نہیں ہے  تومالک اسے تلاش نہیں کرے گا،لہذا  آپ کے لیے اسے ذاتی استعمال میں لانا جائز ہے ،اور اگر لکڑی زیادہ قیمت کی ہے تو چونکہ عام طور پر مالک اسے تلاش کرتا ہے،اس لیے  وہ لقطہ  کے حکم میں ہے جس کی  تشہیر کر کے اسے مالک تک پہنچانا یا مالک نہ ملنے کی صورت میں وہ لکڑی یا اس کی قیمت کو  مالک کی طرف سے صدقہ کرنا لازم ہے  اور اگر اسے اٹھانے ولا  مستحقِ زکوۃ ہےتو خود بھی استعمال کر سکتا ہے ۔

حوالہ جات
قال جمع من العلماء رحمھم اللہ: ثم ما يجده الرجل نوعان: نوع يعلم أن صاحبه لا يطلبه كالنوى ..........الحطب الذي يوجد في الماء لا بأس بأخذه والانتفاع به. (الفتاوی الھندیۃ:1/308)
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ:حطب وجد في الماء، إن له قيمة فلقطة ،وإلا فحلال لآخذه كسائر المباحات الأصلية.
قال العلامۃ ابن  عابدین رحمہ اللہ: قوله: إن له قيمة فلقطة،وقيل: إنه كالتفاح الذي يجده في الماء. وذكر في شرح الوهبانية ضابطا، وهو أن ما لا يسرع إليه الفساد ولا يعتاد رميه كحطب وخشب فهو لقطة إن كانت له قيمة.(الدر المحتار:6/443)
قال العلامۃفریدالدین الھندی رحمہ اللہ:و فی المضمرات:وإن کانت اللقطۃ عشرۃ دراھم فصاعدا ، عرف سنۃ ثم تصدق بھا،و إن کان  محتاجا،أکلھا.(الفتاوی التاتارخانیۃ:7/425)

محمد عمر الیاس

دارالافتاء جامعۃالرشید،کراچی

8 جمادی الثانی،1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عمر بن محمد الیاس

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب