021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
راستے میں گری پڑی چیز کو اٹھا نا
78777گری ہوئی چیزوں اورگمشدہ بچے کے ملنے کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

راستے میں گری پڑی چیز کا کیا کرنا چاہیے۔کچھ روز قبل مجھے  اپنے گھر کے پاس ایک گھڑی نظر آئی جسے میں نے اس نیت سے اٹھا لیا کہ اگر کسی  کی  ہوئی اور اس نے پوچھا تو اس کےحوالے کر دوں گا۔لیکن اب مجھے اس کا مالک نہیں مل رہا۔میں کافی پریشان ہوں کہ  گناہگار نہ ہو جاؤں،مجھے اس صورت میں کیا کرنا چاہیے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

راستے میں گری ہوئی چیز کے  ضائع ہونے کا خطرہ ہو تو اسے اٹھا لینا چاہیے ورنہ چھوڑ دینا چاہیے ۔آپ نے راستے میں سے جو گھڑی اٹھائی ہے ،اسے تشہیر کر کےمالک تک پہچانا ضروری ہے،اگر کوشش کے باوجود مالک نہیں ملتا اور غالب گمان ہو جاتا ہے کہ اب مالک تلاش  نہیں کرے  گا تو آپ وہ گھڑی یا اسے فروخت کر کے اس کی قیمت مالک کی طرف سےصدقہ کر دیں،اور اگر آپ خود مستحقِ   زکوۃ ہیں تو آپ خود بھی استعمال کر سکتے ہیں،لیکن واضح رہے کہ درج بالا تمام صورتوں میں اگر بعد میں مالک آ کر اس گھڑی  یا اس کی قیمت کامطالبہ کرتا ہو تو آپ پر ادا کرنا لازم ہو گا۔

حوالہ جات
قال العلامۃ ابن  علاء الدين  رحمہ اللہ :أما حالة الندب: فهو أن يخاف عليها الضيعة لو تركها فأخذها لصاحبها أفضل من تركها.( بدائع الصنائع:6/200)
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ: إن علم أن صاحبها لا يطلبها أو أنها تفسد إن بقيت كالأطعمة والثمار كانت أمانة لم تضمن بلا تعد .....فينتفع الرافع  بها لو فقيرا وإلا تصدق بها على فقير..... فإن جاء مالكها  بعد التصدق وخير بين إجازة فعله ولو بعد هلاكها  وله ثوابها أو تضمينه.
 (الدر المختار مع رد المحتار:6/436)
قال العلامۃ   فریدالدین الھندی رحمہ اللہ:وإن کانت تمرۃ و بنحوھا،یتصدق بمکانھا،و إن کان محتاجا أکلھا........،و فی المضمرات:وإن کانت اللقطۃ عشرۃ دراھم فصاعدا ، عرف سنۃ ثم تصدق بھا،و إن کان  محتاجا،أکلھا.(الفتاوی التاتارخانیۃ:7/424)
قال جمع من العلماء رحمھم اللہ: واختلفوا فيما بينهم أن الترك أفضل أو الرفع، ظاهر مذهب أصحابنا
رحمهم اللہ تعالى  أن الرفع أفضل كذا في المحيط سواء كانت اللقطة دراهم أو دنانير أو عروضا أو شاة أو حمارا أو بغلا أو فرسا أو إبلا.(الفتاوی الھندیۃ:1/308)

محمد عمر الیاس

دارالافتاء جامعۃالرشید،کراچی

11 جمادی الآخرہ،1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عمر بن محمد الیاس

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب