021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شرکت کا حکم
78767شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

میرانام سید قابل شاہ ہے،مجھے ایک مسئلہ پیش آیا ہے جو کہ آپ حضرات سے تصدیق کرواسکوں کہ یہ مسئلہ سودکے زمرے میں تو نہیں آتا؟میراایک دوست ہے جس کا نام سہیل خان ہے وہ فروٹ منڈی میں کام کرتاہے ،وہ مجھ سے ایک لاکھ روپے بطور قرض ہو یا پھر پارٹنر شپ کی صورت میں لینا چاہتاہے۔پہلے میں بطور قرضہ اس کو ایک لاکھ روپے دینا چاہتاتھا ،لیکن چونکہ وہ بھروسے کے لائق دوست ہیں ،میری تنگدستی دیکھ کر اس نے مجھے اپنے ساتھ بطور پارٹنر شپ کی آفر کی ہے ،ساراکام دیکھنا سنبھالنا سہیل خان کی ذمہ داری ہے جس میں میری کوئی محنت نہیں ہے،کل کو اگر کوئی نقصان ہو یا پھر جو کمایا وہ ہم دونوں میں برابر کے حساب سے تقسیم ہوگا۔آپ حضرات سے گزارش ہے کہ یہ کاروباری طریقہ سود کے زمرے میں تو نہیں آتا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

یہ "شرکت "کی صورت ہے۔اورجائز ہے، سود نہیں ہے،سرمایہ میں کمی پیشی یا کاروبار کی پوری ذمہ داری اٹھانے کی وجہ سے نفع میں کمی پیشی کی جاسکتی ہے کہ ایک  کا حصہ زیادہ ہو اور دوسرے کا کم،تاہم چندباتوں کا خیال رکھناضروری ہے:۔

1۔ نفع کی شرح کاروبار میں ہونے والےحقیقی نفع کے فیصدی تناسب سے طے ہونا لازم ہے ،مثلا:کاروبار سے حاصل ہونے والے نفع میں 60فیصدالف اور 40فیصدباء کا ہو گا۔

2۔منافع کی مخصوص رقمکسی کے لیےطے کرنا درستنہیں،مثلا:50ہزار نفع الف اور40ہزار باءکا ہو گا،اسی طرح یہ طے کر لینا کہ وہ اپنی لگائی ہوئی رقم کا اتنےفیصد لے گا ،جائز نہیں، مثلا:کسی کا سرمایہ 5لاکھ ہو اور نفع  اسی 5 لاکھ کا5 فیصد  مقرر کرلے ،یہ جائز نہیں۔

3۔ نقصان کی صورت میں ہر شریک اپنی سرمایہ کاری کی نسبت  سے نقصان برداشت کرے گا۔

حوالہ جات
وفی الدر المختار وحاشية ابن عابدين (4/ 298):
كتاب الشركة ۔۔۔ (هي) لغة الخلط، سمي بها العقد لأنها سببه. وشرعا (عبارة عن عقد بين المتشاركين في الأصل والربح) جوهرة.۔۔۔(وشرطها) أي شركة العقد (كون المعقود عليه قابلا للوكالة) فلا تصح في مباح كاحتطاب (وعدم ما يقطعها كشرط دراهم مسماة من الربح لأحدهما) لأنه قد لا يربح غير المسمى
وفي البدائع(13/93):
إذا شرطا الربح على قدر المالين متساويا أو متفاضلا ، فلا شك أنه يجوز    ويكون الربح بينهما على الشرط سواء شرطا العمل عليهما أو على أحدهما والوضيعة على قدر المالين متساويا ومتفاضلا ؛ لأن الوضيعة اسم لجزء هالك من المال فيتقدر بقدر المال

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

12/جمادی الثانیہ1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب