78838 | طلاق کے احکام | طلاق دینے اورطلاق واقع ہونے کا بیان |
سوال
السلام علیکم!میری رہائش فیصل آباد میں ہے ،جبکہ ملازمت اسلام آباد میں ہے ۔میری پہلی شادی کو تقریباً 7 سال ہو چکے ہیں۔اسلام آباد میں ایک بیوہ خاتون تھی جس کے ساتھ میں نے تقریباً پانچ ماہ پہلے نکاح کیا ہے اور تب سے مجھےمیری پہلی بیوی اور اس کے میکے والوں کی طرف سے بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور مجھ سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ میں دوسری بیوی کو طلاق دے دوں ،جبکہ میں اسے طلاق نہیں دینا چاہتا۔کیا میں اس صورت میں پہلی بیوی کو صرف دکھانے کے لیے فرضی طلاق نامہ بنوا سکتا ہوں ،جب کہ میرا نکاح بھی دوسری بیوی کے ساتھ باقی رہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اگر آپ طلاق نامہ تیار کراتے وقت دو گواہ بنالیں کہ میں یہ جعلی طلاق نامہ تیار کرا رہا ہوں اور میری نیت طلاق کی نہیں ہے،بلکہ میرا مقصد صرف پہلی بیوی کو دکھانا ہے ،دوسری بیوی کو طلاق دینا مقصد نہیں تو اس طلاق نامہ کی وجہ سےدوسری بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔
حوالہ جات
قال العلامۃ ابن نجیم رحمہ اللہ: وقيدنا بالإنشاء ؛لأنه لو أكره على أن يقر بالطلاق ،فأقر لا يقع ،كما لو أقر بالطلاق هازلا أو كاذبا كذا في الخانية.( البحر الرائق:3/264)
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ:وإن قال: تعمدته تخويفا لم يصدق قضاء إلا إذا أشهد عليه قبله ،وبه يفتى.(الدر المختار مع رد المحتار:3/249)
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ: لو أراد به الخبر عن الماضي كذبا لا يقع ديانة، وإن أشهد قبل ذلك لا يقع قضاء أيضا.(رد المحتار:3/238)
محمد عمر الیاس
دارالافتاء جامعۃالرشید،کراچی
14جمادی الثانی،1444ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد عمر بن محمد الیاس | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |