021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مکان کی تعمیر کیلئے بینک سے قرض /لون لینا
78822سود اور جوے کے مسائلمختلف بینکوں اور جدید مالیاتی اداروں کے سود سے متعلق مسائل کا بیان

سوال

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہمکان کی تعمیر کے لئے بینک سے لون لینا کیسا ہے ؟؟کیا بینک سے لون لینا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ؟کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مفتیان عظام اس مسئلہ کے متعلق کہ زید ایک سرکاری ملازم ہے جسکی آمدنی ماہانہ ایک لاکھ روپے ہے ۔ زید کے پاس ایک زمین ہے جس پر وہ مکان تعمیر کرنا چاہ رہا لیکن اسکا کل خرچ تقریبا اسی لاکھ روپے ہو رہا ہے جسکی بیک وقت ادائیگی زید کے لئے نا ممکن ہے ۔ اور اگر اتنی رقم جمع کرنے کے لئے دس سال انتظار کیا جائے پھر رقم جمع ہونے کے بعد مکان تعمیر کی جائے تو اسکی قیمت اسی لاکھ کے بجائے ڈیڑھ کروڑ ہو جائے گی ۔ تو ایسی صورت میں ستر لاکھ جو کہ بے جا خرچ ہو رہے ہیں اس سے بچنے کے لئے زید ابھی بینک سے اسی لاکھ کا لون لے کر گھر کی تعمیر کر سکتا ہےیا نہیں؟؟ چونکہ اتنی بڑی رقم کوئ قرض دینے بھی تیار نہیں برائے مہربانی شرعی راہنمائی فرمائیں ۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ جس طرح سود پر قرضہ دینا حرام ہے اسی طرح سود پر قرضہ لینا بھی ناجائز اور حرام ہے ، لہذا مکان کی تعمیر یا کسی اور کام کے سلسلے میں سودی بینک سے قرضہ لینا جائز نہیں۔البتہ مستند مفتیانِ کرام کی زیرِ نگرانی  اسلامی بینک اور سودی بینک کی اسلامی بینکاری پر مبنی شاخیں  مکان کی تعمیر  کے سلسلے میں قرض کے بجائے  استصناع کا معاملہ کرتے ہیں  لہذا اسلامی بنکاری کے تحت مکان کی تعمیر کا معاملہ کرنا درست ہے۔

حوالہ جات
حاشية ابن عابدين (5/ 223)
قوله ( هو لغة طلب الصنعة ) أي أن العمل ۔ ففي القاموس الصناعة ككتابة حرفة الصانع وعمله الصنعة ا هـ  فالصنعة عمل الصانع في صناعته أي حرفته ۔ وأما شرعا فهو طلب العمل منه في شيء خاص على وجه مخصوص يعلم ما يأتي
الفتاوى الهندية (3/ 207)
الاستصناع جائز في كل ما جرى التعامل فيه كالقلنسوة والخف والأواني المتخذة من الصفر والنحاس وما أشبه ذلك استحسانا كذا في المحيط ثم إن جاز الاستصناع فيما للناس فيه تعامل إذا بين وصفا على وجه يحصل التعريف
الفتاوى الهندية (4/ 517)
يجوز الاستصناع استحسانا لتعامل الناس وتعارفهم في سائر الأعصار من غير نكير كذا في محيط السرخسي والاستصناع أن تكون العين والعمل من الصانع فأما إذا كانت العين من المستصنع لا من الصانع فإنه يكون إجارة ولا يكون استصناعا كذا في المحيط وفي تجنيس خواهر زاده الاستصناع أن يشتري منه شيئا ويستصنع البائع فيه مثل أن يشتري الأديم ويأمر البائع أن يتخذ له خفا يصف له قدره وعمله فهذا جائز استحسانا وكذلك كل ما جرت العادة باستصناعه مثل آنية الزجاج والنحاس والخشب والقدر وغير ذلك من القلنسوة وأشباهها إذا بين صفته وقدره كذا في التتارخانية

عمر فاروق

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۱۷/جمادی الثانیہ/۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عمرفاروق بن فرقان احمد آفاق

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب