78896 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
شرعی قاضی کے سامنےبھانجوں کااپنی والدہ کی میراث کااپنےماموں سےحاصل کرنےکا دعویٰ 36 سال بعد قابل سماعت رہے گایاطویل مدت گزرجانےکی وجہ سےناقابل سماعت قرار پائےگا۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
وارث اپنے مورِث کے متروکہ مال میں سے اپنے شرعی حصہ کاغیر اختیاری طور پر مالک بن جاتا ہے۔ مالک بننے کے بعد طویل عرصہ گزرنےکےباوجود اس کا حق کبھی ساقط نہیں ہوتا۔ نیزترکہ میں طویل عرصےتک کسی شخص کےناحق قبضے سےباقی ورثہ کی ملکیت زائل نہیں ہوتی ہے۔
لہٰذاصورتِ مسئولہ کے مطابق اگر واقعی کسی وارث /وارثہ نے اپنا حقِ میراث یا اس کا عوض نہ لیا ہو تو بھانجوں کےلیے قاضی کےسامنےاپنی والدہ کی میراث کااپنےماموں سےحاصل کرنےکا دعویٰ جائزاورقابل سماعت ہے۔ ماموں یا کسی اورشخص کےجائیدادمیں طویل مدت تک قابض رہنے سےبھانجوں کامیراث میں حق دعویٰ ساقط نہیں ہوگا۔
حوالہ جات
حاشية ابن عابدين (7 / 505):
الإرث جبري لا يسقط بالإسقاط.
تنقيح الفتاوى الحامدية (4 / 356):
ثم اعلم أن عدم سماع الدعوى بعد مضي ثلاثين سنة أو بعد الاطلاع على التصرف ليس مبنيا على بطلان الحق في ذلك وإنما هو مجرد منع للقضاة عن سماع الدعوى مع بقاء الحق لصاحبه حتى لو أقر به الخصم يلزمه ولو كان ذلك حكما ببطلانه لم يلزمه ويدل على ما قلناه تعليلهم للمنع بقطع التزوير والحيل كما مر فلا يرد ما في قضاء الأشباه من أن الحق لا يسقط بتقادم الزمان .
شرح المجلة لسليم رستم باز(2/377،378):
إن مرور الزمان في اصطلاح الفقهاء عبارة عن منع سماع الدعوى بعد أن تركت مدة معلومة، وهـذا الـمـنع غير قياسي؛ لأن الحق لا يسقط بتقادم الزمان.
محمدعمربن حسین احمد
دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی
18جمادی الثانیۃ 1444ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد عمر ولد حسین احمد | مفتیان | محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب |