021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بینک میں گروی رکھے ہوئے زیورات پر زکوٰۃ
78894زکوة کابیانزکوة کے جدید اور متفرق مسائل کا بیان

سوال

کیا بینک میں رہن رکھوائے گئے سونے چاندی پر زکوۃ رہن چھڑوانے کے بعد کی مدت سے ہی لازم ہو گی یا پھر رہن کی مدت بھی شمار کریں گے اور اس کی زکوٰۃ بھی لازم ہو گی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

زکوٰۃ  کے وجوب کے لیے مالِ زکوٰۃ  کی مکمل ملکیت اور اس پر قبضہ دونوں کاحاصل ہونا شرط ہے،لہٰذاگروی (رہن) رکھے ہوئے زیورات کی زکوٰۃ  نہ تو راہن کے ذمہ واجب ہوتی ہے اور نہ ہی مرتہن کے ذمہ،کیونکہ راہن (گروی رکھوانے والے) کو  گروی رکھے ہوئے زیورات پر قبضہ اور تصرف کا اختیار حاصل نہیں ہوتا،  جب کہ مرتہن (جس کے پاس زیور گروی رکھاہو) کو گروی کے زیورات کی ملکیت حاصل نہیں ہوتی۔

جب راہن اس  سونے،چاندی کو مرتہن (بینک) سے واپس لے گا تو گزشتہ سالوں کی زكوٰة  لازم نہیں ہوگی کیونکہ ان سالوں میں اس شیٔ پرراہن کا قبضہ نہیں تھا،رہن چھڑوانے کے بعد کی مدت سے ہی زکوٰۃلازم ہوگی۔

حوالہ جات
الفتاوى الهندية (1/ 172)
ومنها الملك التام وهو ما اجتمع فيه الملك واليد وأما إذا وجد الملك دون اليد كالصداق قبل القبض أو وجد اليد دون الملك كملك المكاتب والمديون لا تجب فيه الزكاة كذا في السراج الوهاج…..ولا على الراهن إذا كان الرهن في يد المرتهن هكذا في البحر الرائق.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 9)
ومنها الملك المطلق وهو أن يكون مملوكا له رقبة ويدا وهذا قول أصحابنا الثلاثة.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 263)
(قوله: ولا في مرهون) أي لا على المرتهن لعدم ملك الرقبة ولا على الراهن لعدم اليد، وإذا استرده الراهن لا يزكي عن السنين الماضية، وهو معنى قول الشارح بعد قبضه، ويدل عليه قول البحر ومن موانع الوجوب الرهن ح وظاهره ولو كان الرهن أزيد من الدين.

    محمدمصطفیٰ رضا

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

18/جمادی الثانیہ/1444ھ                     

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد مصطفیٰ رضا بن رضا خان

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب