78901 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
زید کے سات بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں، دو بیٹیوں کا انتقال زید کی زندگی میں ہوا، ان کی اولاد ہیں۔ کچھ عرصہ بعد زید کا بھی انتقال ہوا۔ سوال یہ ہے کہ جن دو بیٹیوں کا انتقال زید کی زندگی میں ہوا تھا، ان کی اولاد کو زید کے مرنے کے بعد اس کی جائیداد میں حصہ ملے گا یا نہیں؟
نوٹ: جب زید کا انتقال ہوا تو قانون کے مطابق اس کی زمین کا کچھ حصہ ان دو بیٹیوں کے نام بھی منتقل ہوا جو زید کی زندگی میں فوت ہوئی تھیں، پھر ان سے ان کے بچوں کے نام منتقل ہوا۔ پھر زید کے بیٹے زمین بیچ رہے تھے تو انہوں نے اپنی دونوں فوت شدہ بہنوں کے بچوں سے دستخط لے کر زمین کا وہ حصہ اپنے نام کرلیا۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورتِ مسئولہ میں زید کی جن دو بیٹیوں کا انتقال اس کی زندگی میں ہوا تھا، وہ اور ان کی اولاد زید کے مرنے کے بعد شرعا اس کے ورثا میں شامل نہیں ہیں؛ اس لیے مذکورہ زمین سمیت زید کے باقی ترکہ میں وہ میراث کے حصے کا مطالبہ نہیں کرسکتے۔ یہ زمین اور باقی ترکہ زید کے ان ورثا کے درمیان تقسیم ہوگا جو اس کی وفات کے وقت زندہ تھے۔ لہٰذا اگر زید کے انتقال کے بعد اس کی زمین کا کچھ حصہ قانونی طور پر بطورِ میراث فوت شدہ بیٹیوں کے نام بھی منتقل ہوا تھا اور ان سے پھر ان کی اولاد کے نام منتقل ہوا تھا تو اس نام ہونے سے وہ اس کے مالک نہیں بنے ہیں، وہ زمین زید کے ورثا ہی کی ہے۔
حوالہ جات
القرآن الکریم، [النساء: 11]:
{يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ}.
صحيح مسلم (3/ 1233):
حدثنا عبد الأعلى بن حماد (وهو النرسي) حدثنا وهيب عن بن طاوس عن أبيه عن ابن عباس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألحقوا الفرائض بأهلها، فما بقي فهو لأولى رجل ذكر.
ردالمحتار(6/ 758):
وشروطه ثلاثة: موت مورث حقيقة أو حكما كمفقود أو تقديرا كجنين فيه غرة، ووجود وارثه عند موته حيا حقيقة أو تقديرا كالحمل، والعلم بجهة إرثه.
عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
18/جمادی الآخرۃ/1444ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبداللہ ولی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |