021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والدنےبیٹوں میں جائیدادتقسیم کردی،بعدمیں پوتوں میں اختلاف ہوگیا
79054تقسیم جائیداد کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

کیافرماتےہیں علماء دین اس مسئلہ کےبارےمیں کہ ہمارےدادانےمیرےوالداورچچاکےدرمیان بعض فیصلہ کنندگان کےذریعہ فیصلہ کروایاتھا،جس کی تفصیل کچھ یوں ہے:

۱۔میرےچچاکمال مرحوم ولددین صاحب کی جودبئی میں پنشن اورتنخواہیں تھیں وہ میرےچچا کمال کودیدی ۔

۲۔ڈیرہ اسماعیل خان  میں جودس کنال اراضی ہےوہ کمال کودیدی اور کمال کی ملکیت ہوگئی ہے۔

۲۔سرائےدرپہ خیل میرانشاہ میں جوپلاسٹک کاکارخانہ ہےیہ ساراسرمایہ کمال کودیدیا۔

۴۔ایک وہیکل موٹرکارکمال کودیدی۔

۵۔سیمنٹ کےکاروبارمیں جوسرمایہ ہےوہ بھی کمال کود یدیا۔

۶۔ایک کلاشنکوف کمال کودیدی ۔

۷۔ڈانڈےگاؤں میں جوزمین پھاٹک کےقریب غالب دین کے گھرکےساتھ ہےوہ بھی کمال کودیدی ۔

۸۔ممتازمارکیٹ میں جودکان حزب اللہ ولدادریس چلاتاتھا،اوراس میں  رقم حزب اللہ کی والدہ ماجدہ کی ہے( جوکہ ادریس کی زوجہ ہے) یہ دونوں (ادریس اورکمال )کی مشترک ہے۔

۹۔سرائےدرپہ خیل میرانشاہ میں تعمیرشدہ مکان کےساتھ متصل ایک عددپلاٹ ادریس کودیدیااورادریس کی ملکیت ہوگئی،بعوض 23تولہ سونازوجہ ادریس کے۔

۱۰۔موضع درپہ خیل میں زرعی اراضی موسومہ ڈوگ والی زمین نارےخلہ جوکہ مجموعی طورپر 27 یوستے(تین یوستےایک کنال )بنتی ہے،ادریس کو دیدی اوریہ ادریس کی قطعی ملکیت ہوگئی۔

۱۱۔گاؤں درپہ خیل (ژراندےکلہ )میں جورہائشی مکان تعمیر شدہ ہےادریس کودیدیا،یہ ادریس کی قطعی ملکیت ہوگئی۔

۱۲۔ڈانڈے(گاؤں )میں نیرمحمدکےگھرکےساتھ جوزمین ہےوہ بھی ادریس کودیدیاجائےاوریہ ادریس کی قطعی ملکیت ہوگئی۔

۱۳۔ایک عددخاصہ  دارنوکری اردریس کودیدی اورکسی کو نہیں۔

۱۴۔ایک عددکلاشنکوف ادریس کودیدی جوکہ فی الحال کمال کےپاس ہے،ادریس جس وقت کمال سےکلاشنکوف کامطالبہ کرےگاکمال مذکورہ کلاشنکوف اس کو دیدےگا۔

یہ مندرجہ بالا فیصلہ مرحوم دین صاحب نےاپنےدوبیٹوں (کما ل اورادریس)کےمابین اپنی زندگی میں کردیاتھا۔

اس فیصلےکےکاغذات اس استفتاء کےساتھ منسلک ہیں۔

اس کےبرعکس مجھے یعنی (حزب اللہ ولدادریس مرحوم کو)مذکورہ بالا  دادا کافیصلہ(جو 2007 میں ہواتھا)اس کاکوئی علم نہیں تھاکیونکہ اس وقت میری عمر 11سال تھی،چونکہ 2015 میں میرےچچا کمال وفات پاگئے اوراس کےایک سال بعد 2016 میں میرےوالد ادریس وفات پاگئے۔2019 میں  میرےچچازاد بھائیوں (کما ل کےبیٹوں )نےدوبارہ اس بات کوا ٹھایا ،جس کےنتیجےمیں 2019میں ہمارےکچھ رشتہ داروں نےہمارےمابین دوبارہ فیصلہ کیا،اس فیصلہ میں ہمارےدادانےاپنےبیٹوں ادریس اورکمال کےدرمیان جائیدادوغیرہ کی جوتقسیم کی تھی،اس کےبرخلاف  ادریس کےحصےکی جائیدادمیں کمال کےبیٹوں  کودوبارہ مشترک یعنی حصہ دارٹھہرادیاگیا۔

کیا 2019 کےفیصلےپرمیں اعتراض کرسکتاہوں،اور 2007 میں دادا کی تقسیم کی ہوئی جائیدادکےبعد کیا 2019 کےفیصلےکی کوئی شرعی حیثیت باقی رہتی ہے؟

تنقیح:والدکی زندگی میں جودوبیٹوں میں فیصلہ کیاتھا،دونوں بیٹے(موجودورثہ کےوالد)اس پرراضی تھے،سائل چونکہ اس وقت کم عمر تھاتواس فیصلےکاعلم نہیں تھا،اس لیےدیگرچچازادکےمطالبہ پرسائل نےدیگرچچازادکےساتھ مل کرفیصلہ کروالیا،بعدمیں گزشتہ 2007 کےفیصلےکاعلم ہواہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

والدکی زندگی میں چونکہ دونوں بیٹے(آپ کےوالداورچچا) اس تقسیم پرراضی تھےاوران کی رضامندی سےیہ چیزیں تقسیم کی گئی تھیں تنقیح اورسوال کےمطابق دادانےاپنی زندگی میں یہ چیزیں بیٹوں کوقبضےمیں بھی دیدی تھیں تو2007کافیصلہ ہی  شرعامعتبرشمارہوگا،اوراسی تقسیم کےمطابق دونوں بھائیوں کےورثہ میں بھی وہی چیزیں تقسیم کی جائیں گی۔لہذاایسی صورت میں بعدمیں پوتوں میں اختلاف  کی وجہ سےدوبارہ تقسیم کاعمل نہیں ہوگا۔

صورت مسئولہ میں ادریس کےحصےمیں آنےوالی چیزیں اس کےورثہ کی ہوں گی،اسی طرح کمال کےحصےمیں آنےوالی چیزیں اس کےورثہ کی ہوں گی،ایک دفعہ تقسیم کےبعددوبارہ تقسیم کےمطالبہ کاشرعا اختیارنہیں ہوتا،لہذا 2019 میں دوبارہ کی گئی تقسیم کاشرعااعتبارنہیں ہوگا،سابقہ تقسیم(2007) کےمطابق ہی چیزیں تقسیم کی جائیں   گی ۔

حوالہ جات
"بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع "14 / 495:
 ولو ادعى أحد الشريكين الغلط في القسمة فهذا لا يخلو من أحد وجهين : إما أن كان المدعي أقر باستيفاء حقه ، وإما أن كان لم يقر بذلك ، فإن كان قد أقر باستيفاء حقه لا يسمع منه دعوى الغلط ؛ لكونه مناقضا في دعواه ؛ لأن الإقرار باستيفاء الحق إقرار بوصول حقه إليه بكماله ، ودعوى الغلط إخبار أنه لم يصل إليه حقه بكماله فيتناقض ، وإن كان لم يقر باستيفاء حقه ؛ لا تعاد القسمة بمجرد الدعوى ؛ لأن القسمة قد صحت من حيث الظاهر فلا يجوز نقضها إلا بحجة ، فإن أقام البينة أعيدت القسمة ؛ لما قلنا ، وإن لم تقم له بينة وأنكر شريكه ، فأراد استحلافه حلفه على ما ادعى من الغلط ؛ لأنه يدعي عليه حقا هو جائز الوجود والعدم ، وهو ينكر فيحلف ، وبيان ذلك : دار بين رجلين اقتسما ، واستوفى كل واحد منهما حقه ثم ادعى أحدهما غلطا في القسمة لا تعاد القسمة ، ولكن يسأل البينة على الغلط ، فإن أقام البينة وإلا فيحلف شريكه إن شاء ؛ لما قلنا۔
"العناية شرح الهداية 14 / 66:
 باب دعوى الغلط في القسمة والاستحقاق فيها ) قال ( وإذا ادعى أحدهم الغلط وزعم أن مما أصابه شيئا في يد صاحبه وقد أشهد على نفسه بالاستيفاء لم يصدق على ذلك إلا ببينة ) لأنه يدعي فسخ القسمة بعد وقوعها فلا يصدق إلا بحجة۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی

25/جمادی الثانیہ    1444ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب