021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نماز جمعہ کے لیے گھروں اور افراد کی تعداد
79041نماز کا بیانجمعہ و عیدین کے مسائل

سوال

نماز جمعہ کےجواز کے لئے مردم شماری ۔ افراد کی تعداد اور گھر وں کی تعداد کتنالازمی اور ضروری ہے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جمعہ کے جواز کے لیے اصل تو یہ ہے کہ مصر یعنی شہر ہو،اس کے بعد قریہ کبیرہ یعنی بڑی بستی جس میں بازار ہو، میں جمعہ پڑھنے کی اجازت ہے،قریہ کبیرہ معلوم کرنے کے لیے مختلف حضرات نے ضروریات نیزگھروں اور لوگوں کے حوالے سے مختلف اندازے ذکر کیے ہیں،یہ اپنے اپنے دور میں قریہ کبیرہ کی تعیین کی صورتیں تھیں،چناچہ اس حوالے سے آجکل کے اعتبار سے قریہ کبیرہ میں بازار کے بارے میں یہ دوصورتیں ہیں:

1۔جہا ں متصل دورویہ دکانیں ہوں۔

2۔جہاں اتنی دکانیں ہوں( اگرچہ متفرق ہوں) جن سے مقامی افراد کی اکثر ضروریات زندگی سے متعلق اشیاء مل جاتی ہوں۔

ضروریات زندگی میں تین چیزیں اہم ہیں:

1۔کھانے، پینے اور پہننے کی اشیاء موجود ہوں۔

2۔دینی وعصری تعلیم کے مراکزہوں۔کم از کم میٹرک تک تعلیم ہوتی ہو۔

3۔صحت کے مراکز۔جہاں بنیادی علاج معالجہ کی سہولت موجود ہو۔

یہ اس بناء پر کہ قریہ کبیرہ بہرحال اپنی ہیئت کے اعتبارسے مصر سے چھوٹا ہوتا ہے ،لہذا اس میں وہ تمام چیزیں بطور شرط ملحوظ رکھنا مشکل ہےجو مصر کی خاصیت یا اس کے لیے ضروری ہوا کرتی ہیں۔

حضرات اکابر رحمہم اللہ تعالی کے فتاوی میںقریہ کبیرہ کے بارے میں پوچھےگئے سوالاتکے جوابات پرغور کرنے سے معلوم ہوا کہ ایسی جگہ جہاں معتددبہ آبادی اور دکانیں ہوں اور مقامی لوگوں کی اکثر اشیاء ضرورت پوری ہورہی ہوں وہ بھی قریہ کبیرہ ہے،اور وہاں جمعہ کی نماز پڑھنا جائز ہے۔چنانچہ چندفتاوی ملاحظہ ہوں۔

فتاوی دارالعلوم دیوبند(5/78):

"شہر اور قصبہ اور بڑے قریہ میں جس میں دو چار ہزار آدمی آباد ہوں اور ضروری اشیاء کی دوکانیں ہوں وہاں جمعہ واجب ہے اور اداء ہوتا ہے۔"

فتاوی محمودیہ(8/145):

"بڑا گاؤں وہ ہے جس میں گلی کوچے ہوں،بازار ہو،روزمرہ کی ضروریات ملتی ہوں ،تین چار ہزار آبادی ہو۔"

دوسری جگہ (8/66) میں تحریر فرماتے ہیں:

"جمعہ فی القری اور قریہ کی تعریف"

سوال:جمعہ فی القری جائز ہے یانہیں؟ قریہ اور شہر کی تعریف مفصل تحریر فرمائیں۔

جواب:قریہ صغیرہ میں جمعہ جائز نہیں ،قریہ کبیرہ میں جائز ہے ۔قریہ اور شہر کی تعریف میں عرف کے اعتبار سے تغیر ہوتا رہتا ہے،اس لیے کہ ماہیت کی تعریف تو مقصود نہیں ہے،آثار وعلامات کے اعتبار سے تعریف کی جاتی ہے،جس سے دونوں میں فی الجملہ امتیاز قائم ہوجائے ،آثار وعلامات کا تغیر یہی ہے ،مثلا جس جگہ جمعہ کی اجازت ہو اس کے متعلق اس طرح علامات بتائی جائیں کہ وہاں گلی کوچے ہوں ،ضروری پیشہ ور رہتے ہوں،ڈاکخانہ ہو،شفاخانہ ہو یا حکیم یا ڈاکٹر ہو،نزاعات کا فیصلہ کرنے لیے سرکاری حاکم یا پنچایت ہو،بازار ہو،روزمرہ کی ضروریات ہمیشہ ملتی ہوں۔ایسانہ ہوکہ  ہفتہ میں ایک دن بازار لگا ،باہر سے دوکاندار سامان لائے ،ان سے ضروریات خرید لی گئیں ،وہ چلے گئے ،بازار ختم ہوگیا ،پھر ضروریات خریدنے کےلیے دوسرے بازار کا انتظار کرنا پڑے ،کم وبیش ڈھائی ہزار کی آبادی ہو۔یہ تعریف حقیقی نہیں،جس سے ادراک بالکنہ حاصل ہو۔

فتاوی عثمانی(1/513):

سوال:  ہمارے گاؤں میں ڈاکخانہ اور یونین کونسل کا دفتر موجود ہے اور ہمارا علاقہ ملیر سٹی سے چودہ میل دور ہے،

سرکاری اعداد مردم شماری چار ہزار ہے، روز مرہ کی زندگی کے سازو سامان بھی مل رہے ہیں الخ۔ کیا جمعہ ایسی جگہ جائز ہے؟

جواب:  سوال میں بستی کے جو حالات بیان کئے گئے ہیں ان کے پیش نظر اس بستی میں نماز جمہ درست ہے ، فقط۔

فتاوی فریدیہ(3/165):

"چار ہزار افراد پر مشتمل آبادی جہاں سولہ دکانیں ہوں ،میں جمعہ کا حکم"

سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ کربلا ضلع پشین میں چار ہزار لوگ رہتے ہیں، ہر قسم

سہولیات، سکول، ہسپتال، ڈاکخانہ اور تقریباً سولہ دکانیں بھی ہیں کیا اس مقام میں جمعہ درست ہے؟

بینواتوجرواالمستفتی: عبد الرحمن کربلا ضلع پشین…۱۹۸۴ء/۸/۲۵

الجواب: یہ مقام قریہ کبیرہ ہے اس میں نماز جمعہ قائم کرنا جائزہے۔

 کما فی ردالمحتار ص۷۴۸ جلد۱ عن القہستانی ، وعبارۃ القہستانی وتقع فرضا فی القصبات والقریٰ الکبیرۃ التی فیہا أسواق انتہیٰ۔

قلت: والمراد من الأسواق الحوانیت التی تکفی لحوائج ھذا المقام ورساتیقھا، لا الأسواق المعروفۃ فی ھذا الزمان فانھا لم تکن فی الحرمین الشریفین أیضا فی تلک الأعصار۔ وھوالموفق۔ وفی المنہاج : قلت: الحوانیت المتعددۃ التی تکفی لحوائج أھل ھذہ البلدۃ وأھل الرساتیق المتعلقۃ بہا تقوم مقامالأسواق فی أصل الغرض۔ (منہاج السنن شرح جامع السنن: ص۴۷ جلد۳ باب ماجاء منکم یؤتی الی الجمعۃ)"۔

امداد الفتاوی( 1/452):

"ہماری نظر اس پر ہے کہ اس ملک کے عرف اور عقلاء اور حکام کی اصطلاح یہ  ہے کہ چار ہزار لوگوں کی آبادی کو

قصبہ شمار کرتے ہیں،اور فقہاء کے اس قول پر بھی نظر ہے کہ شہر وہ ہے جس میں بازار ہوں ،اس قریہ کبیرہ(قصبہ)

کی تعریف کے مطابق میرافتوی دینے کا معمول یہ ہے کہ ایسا مقام  جمعہ کے قائم ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے ،پس ہر وہ جگہ کہ جس میں یہ دوشرطیں پائی جائیں،جمعہ قائم کرنا جائز ہے  اور اس سے زیادہ ہمیں تحقیق نہیں۔"

امداد الفتاوی( 1/452):

"اور کبیرہ وصغیرہ میں مابہ الفرق  اگر آبادی کی مقدار لی جاوے تو اس کا مدار عرف پر ہوگا اور عرف کے تتبع سے

معلوم ہوا کہ حکام وقت جو کہ حکمائے تمدن بھی ہیں ،چاہر ہزار کی آبادی کو قصبہ میں شمار کرتے ہیں،اور چار ہزار کے

قریب بوجہ معتبر نہ ہونے کسر کے ،حکم میں چار ہزار کے ہے۔"         

حوالہ جات

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

25/جمادی الثانیہ1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب