021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شرکت میں فیصدی نفع طے نہ کرنے کا حکم
82649شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء درجِ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ

میں ایک کمپنی(AR Distributer)میں بطورانوسٹرکام کرتا ہوں،اس کمپنی کا کام یہ ہے کہ یہ لاہورکی ہول سیل مارکیٹ سے شیروانی یا ویسکوٹ کے فینسی بٹن خریدتی ہے،  اوراسے کراچی میں بڑے بڑے برانڈ جیسے کہ ڈائنر،آئیڈیاز، گل احمدوغیرہ کو سیل کرتی ہے،میں نےبحیثیت پاٹنرشپ کے ان کے ساتھ تین لاکھ روپے انویسٹ کئے ہیں، اب یہ لاہورکی مارکیٹ سے ایک بٹن 18روپے کا خریدتے ہیں اوراخراجات ملاکر وہ 20روپے کا ہوجاتاہے، جسے وہ یہاں کراچی میں 24رپے کابیچتے ہیں،جس میں نفع 4 روپے ہوتاہے،اب ان 4روپے میں ایک روپیہ 40پیسے کمپنی کے ہیں اور2روپے اور60 پیسے میرے ہیں ،ان کا مجھے پرافٹ دینے کا طریقہ یہ ہےکہ وہ ہر 2مہینوں میں مجھے رقم دیتے ہیں،اب میرا سوال یہ ہےکہ

کیا اس طرح کا کاروباراوررقم لینا درست ہے؟ اگردرست نہیں تو وجہ بھی بیان فرمادیں اورسابقہ رقم  کا حکم بھی بتادیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں مذکورصورت میں اگرنفع  فیصدی  لحاظ سے تقسیم کرناطےکیا جاتا مثلاً:اس طرح کہ نفع میں سے %25.40 ایک کو،  اور%75.60دوسرے کو ملے گا تو  درست ہوتا،  اس صورت میں اگر4 روپے نفع  ہوتا تو  اس میں سے ایک روپے اور40پیسے ایک کے اورتین روپے اور60 پیسے  دوسرے کے ہوتے اوراگرنفع  اس سے کم یا زیادہ ہوتا تو اسی تناسب سے تقسیم ہوتا،اورنقصان بقدرِرٲس المال ہوتا،پھرنفع چاہے ماہوار تقسیم کیاجاتایا دو ماہ کےبعدکیاجاتا دونوں طریقے درست ہیں۔

سوال میں فیصدی تناسب کے اعتبار سے نفع طے نہ کرنے کی وجہ سے شرکت کامذکورہ معاملہ فاسد ہوگیا ہے، اورشرکتِ  فاسدہ  کا حکم یہ ہے کہ ہر ایک شریک اپنے سرمائے کے تناسب سےنفع نقصان کا حق دار ہوتا ہے، لہذا  فریقیناپنے اپنے سرمائے کے تناسب سے نفع و نقصان  کا حساب لگالیں اورآئندہ کےلیے مذکورہ درست طریقے کوطے کیاجائے۔

حوالہ جات
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (6/ 59):
(ومنها) : أن يكون الربح جزءا شائعا في الجملة، لا معينا، فإن عينا عشرة، أو مائة، أو نحو ذلك كانت الشركة  فاسدة؛ لأن العقد يقتضي تحقق الشركة في الربح والتعيين يقطع الشركة لجواز أن لا يحصل من الربح إلا القدر المعين لأحدهما، فلا يتحقق الشركة في الربح.
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (1/ 716):
(وشرطها) أي شركة العقد (عدم ما يقطعها) أي الشركة (كشرط دراهم معينة من الربح لأحدهما) فإنه يقطع الشركة في الربح لاحتمال أن لا يربح غيره.
فتح القدير للكمال ابن الهمام (6/ 155):
 ولا خلاف أن اشتراط الوضيعة بخلاف قدر رأس المال باطل، واشتراط الربح متفاوتا عندنا صحيح فيما سيذكر.
وفی الشامیة:
"(والربح في الشركة الفاسدة بقدر المال ولا عبرة بشرط الفضل ) فلو كل المال لأحدهما فللآخر أجر مثله، كما لو دفع دابته لرجل ليؤجرها والأجر بينهما فالشركة فاسدة، والربح للمالك وللآخر أجر مثله، وكذلك السفينة والبيت، ولو لم يبع عليها البر فالربح لرب البر وللآخر أجر مثل الدابة."(کتاب الشرکة، ‌‌فصل في الشركة الفاسدة، 4 / 326، ط: سعید)

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

 دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

‏  5/07/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے