021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کارنر کے پاس خالی زمین پر مکان اور دکان بنانا
79045جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

میرا گھر کارنر کا ہے، گھر کے برابر میں جگہ خالی تھی، آج سے 22 سال پہلے والد صاحب نے اس جگہ مکان بنا کر کرایہ پر دئیے ہوئے ہیں، میری دکان بھی اسی میں شامل ہے۔ اس جگہ سے آنے والی آمدن ہمارے لیے حلال ہوگی یا حرام؟ نیز جب سے یہ آبادی ہوئی ہے، یہ جگہ خالی پڑی ہوئی تھی۔ اسی جگہ میری دکان بھی ہے تو دکان کے لیے کیا حکم ہے؟ اگر اس کی آمدن حرام ہوتی ہے تو ہمیں کیا کرنا پڑے گا؟ کیا جگہ مسمار کر کے زمین سے برابر کرنی ہوگی یا پھر بنی رہنے دیں؟ اور اگر والدہ اور بہن بھائی کہیں کہ جیسا چل رہا ہے، چلنے دو تو میرے لیے کیا حکم ہوگا؟ کیا میں بھی اس آمدن سے کھا سکتا ہوں؟

تنقیح: سائل نے فون پر بتایا کہ یہ جگہ 120 گز کا پلاٹ ہے جس پر دو مکان اور ایک دکان بنی ہوئی ہے، دکان میں میں اپنا کام کرتا ہوں اور مکانات کا کرایہ والدہ کے پاس آتا ہے، والد صاحب کا دو سال پہلے انتقال ہوا ہے۔ یہ جگہ ایسی نہیں کہ کسی کی ملکیتی ہو اور مالک معلوم نہ ہو، بلکہ یہ حکومت کی ہے، وہ اس طرح سے کہ حکومت کارنر کے پاس کچھ جگہ خالی چھوڑتی ہے، تاکہ راستہ وغیرہ کا مسئلہ نہ ہو۔ چونکہ گلی ہمارے گھر پر ختم ہوتی ہے اور اس وقت ہمارے مختلف رشتہ دار مختلف محکموں میں تھے تو انہوں نے بتایا کہ آپ لوگ اس زمین کو بھی اپنی باؤنڈری میں لے لیں اور اس پر تعمیر کرلیں، اگر حکومت کا کوئی بندہ آئے گا تو ہم دیکھ لیں گے۔  

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق یہ جگہ آپ کے والد صاحب کی ملکیت نہیں تھی، بلکہ عوامی جگہ تھی، ایسی جگہ پر ذاتی مکانات اور دکان بنانا جائز نہیں، حرام تھا۔ اس کی وجہ سے آپ کے والد صاحب اور جن لوگوں نے انہیں ایسا کرنے کا مشورہ دیا تھا، سخت گناہ گار ہوئے ہیں، یہ کسی ایک شخص کی جگہ غصب کرنا نہیں، بلکہ بے شمار لوگوں کا حق غصب کرنا ہے جس کا وبال بہت سخت ہے۔ جب یہ جگہ آپ کے والد صاحب کی نہیں تھی تو ان کی وفات کے بعد یہ ان کی میراث میں بھی شامل نہیں ہوگی۔ لہٰذا اب آپ سب پر لازم ہے کہ اس جگہ سے اپنی تعمیر ختم کر کے اس کو خالی کریں۔ اگر آپ کی والدہ اور دوسرے بہن بھائی اس کے لیے تیار نہیں ہوتے تو آپ کم از کم اپنا کام وہاں سے ختم کرلیں؛ کیونکہ ہر شخص اپنی ذات کا مکلف ہے، ان کے راضی نہ ہونے کی وجہ سے آپ کے لیے وہاں کام کرنا جائز نہیں ہوگا۔  

حوالہ جات
سنن أبى داود (3/ 142):
حدثنا محمد بن المثنى حدثنا عبد الوهاب حدثنا أيوب عن هشام بن عروة عن أبيه عن سعيد بن زيد عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: « من أحيا أرضا ميتة فهى له، وليس لعرق ظالم حق ».
شرح المشكاة للطيبي (7/ 2191):
قوله "وليس لعرق ظالم"، روي بالإضافة والوصف. والمعنى أن من غرس أرض غيره أو زرعه بغير إذنه، فليس لغرسه وزرعه حق إبقاء، بل لمالك الأرض أن يقلعه مجانا. وقيل: معناه أن من غرس أرضا أحياها غيره أو زرعها لم يستحق به الأرض، وهو أوفق للحكم السابق. و "ظالم" إن أضيف إليه فالمراد به الغارس، سماه ظالما؛ لأنه تصرف في ملك الغير بغير إذنه، وإن وصف به فالمغروس، سمي به؛ لأنه الظالم، أو لأن الظلم حصل به علي الإسناد المجازي.
الهداية (4/ 17):
قال: ومن غصب أرضا فغرس فيها أو بنى، قيل له: اقلع البناء والغرس وردها؛ لقوله عليه الصلاة والسلام "ليس لعرق ظالم حق"، ولأن ملك صاحب الأرض باق؛ فإن الأرض لم تصر مستهلكة، والغصب لا يتحقق فيها، ولا بد للملك من سبب، فيؤمر الشاغل بتفريغها، كما إذا شغل ظرف غيره بطعامه.
تبيين الحقائق (6/ 142):
قال رحمه الله ( ومن أخرج إلى الطريق العامة كنيفا أو ميزابا أو جرصنا أو دكانا فلكل نزعه ) أي لكل أحد من أهل الخصومة مطالبته بالنقض كالمسلم البالغ العاقل الحر أو الذمي لأن لكل منهم المرور بنفسه وبدوابه، فيكون له الخصومة بنقضه كما في الملك المشترك.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

  26/جمادی الآخرۃ/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب