021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اسلامی بینک میں اکاؤنٹ کھلوانے کا حکم
79154/62خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

کیا میزان صحیح اور سودوغیرہ سے پاک ہے؟کچھ اور بینک بھی اسلامک ہے تو اس کا کیا حکم ہے کیا یہ بھی مکمل اسلامک ہیں؟ اسلامک بینکس میں کاروبار اور اکاؤنٹس کھولنا کیسا ہے؟ کنونشنل بینک میں اکاؤنٹس یا کاروبار کا حکم؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

عام طور پر بینک کی مالی سرگرمیاں دو قسم کی ہوتی ہیں:

اثاثہ جاتی حصہ (Asset Side): اس حصہ میں بینک اپنے تمویل کار (کلائنٹ) کو مختلف قسم کی تمویلی سہولیات فراہم کرتا ہے جیسے کنوینشنل بینک اپنے کلائنٹس کو سودی قرضے دیتا ہے جبکہ اسلامی بینک مرابحہ، اجارہ، سلم اور استصناع وغیرہ کے ذریعے تمویلی سہولیات فراہم کرتے ہیں۔

ذمہ داری والا حصہ (Liability Side) : اس حصہ میں سودی بینک اپنے ڈیپازیٹر سے رقم قرض کے طور پر لیتا ہے اور اس کو آگے سودی قرضوں  یا کاروبار میں لگاتا ہے، اس سے حاصل ہونے والا سود یا منافع اپنے ڈیپازیٹرز میں تقسیم کرتا ہے، جبکہ اسلامی بینک اپنے ڈیپازیٹر سے مشارکہ اور مضاربہ کی بنیاد پر رقم وصول کرتا ہے اور اس کو جائز کاروبار میں لگاتا ہے، اس سے حاصل ہونے والے نفع و نقصان میں اپنے ڈیپازیٹر کو شریک کرتا ہے۔

مذکورہ تفصیل کی رو سے چند وضاحتیں یہ ہیں کہ:

1۔ کنوینشنل بینک سے تمویلی سہولیات یعنی سودی قرضہ لینا جائز نہیں جبکہ اسلامی بینک سے مرابحہ، اجارہ، سلم اور استصناع وغیرہ کےذریعے تمویلی سہولیات (Financing)  لینا جائز ہے۔

2۔ کنوینشنل بینک میں جاری کھاتہ (Current Account) کھلوانا فی نفسہٖ جائز ہے البتہ اسلامی بینک میں  یہ اکاؤنٹ کھلوایا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔

3۔ کنوینشنل بینک میں سیونگ اکاؤنٹ (Saving Account)  کھلوانا جائز نہیں ہے، کیونکہ کنوینشنل بینک میں جو رقم منافع کے حصول کے لیے جمع کروائی جاتی ہےوہ قرض کے نام سے تو نہیں ہوتی لیکن حقیقت میں وہ بھی قرض ہے ، قرض پر حاصل ہونے والا نفع سود کہلاتاہے، لہٰذا کنوینشنل بینک میں جمع کروائی گئی رقم پر ڈیپازیٹر کو جو منافع ملتا ہے وہ سود ہے۔ اسکی بجائے اگر رقم کسی ایسے اسلامی بینک میں جمع کروائی گئی ہے جو مستند شرعی ایڈوائزر کی نگرانی میں کام کرتے ہیں تو چونکہ اسلامی بینک اپنے ڈیپازیٹر سے مشارکہ اور مضاربہ کی بنیاد پر رقم وصول کرتا ہے اور اس کو جائز کاروبار میں لگاتا ہے اور اس سے حاصل ہونے والے نفع و نقصان میں اپنے ڈیپازیٹر کو شریک کرتا ہے ، لہٰذا ڈیپازیٹر کو ملنے والا منافع حلال منافع ہے، سود نہیں ہے۔

4۔ ایسا بینک جو شریعہ بورڈ اور مستند وماہرین علماء کے زیر نگرانی کام کرتا ہو تو اس کو اسلامی بینک کہا جا سکتا ہے بشرطیکہ اس کی سرگرمیاں اسلامی اصولوں کے مطابق ہوں، البتہ تفصیل کے لیے اُس بینک کے شریعہ بورڈ سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔

حوالہ جات
المبسوط للسرخسي (22/ 18):
"المضاربة مشتقة من الضرب في الأرض، وإنما سمي به؛ لأن المضارب يستحق الربح بسعيه وعمله فهو شريكه في الربح
المبسوط للسرخسي (22/ 19):
"ولهذا العقد أحكام شتى من عقود مختلفة، فإنه إذا أسلم رأس المال للمضارب فهو أمين فيه، كالمودع وإذا تصرف فيه فهو وكيل في ذلك يرجع بما يلحقه من العهدة على رب المال كالوكيل، فإذا حصل الربح كان شريكه في الربح وإذا فسد العقد كانت إجارة فاسدة حتى يكون للمضارب أجر مثل عمله، وإذا خالف المضارب كان غاصبا ضامنا للمال ولكن المقصود بهذا العقد الشركة في الربح وكل شرط يؤدي إلى قطع الشركة في الربح بينهما مع حصوله فهو مبطل للعقد؛ لأنه مفوت لموجب العقد"
الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 200):
"قال: "المضاربة عقد على الشركة بمال من أحد الجانبين" ومراده الشركة في الربح وهو يستحق بالمال من أحد الجانبين "والعمل من الجانب الآخر" ولا مضاربة بدونها؛"
مجلة الأحكام العدلية (ص: 273):
"المادة (1413) المضارب أمين ورأس المال في يده في حكم الوديعة , ومن جهة تصرفه في رأس المال وكيل لرب المال , وإذا ربح يكون شريكا فيه"
الفتاوى الهندية (32/ 424):
"هي عبارة عن عقد على الشركة في الربح بمال من أحد الجانبين والعمل من الجانب الآخر حتى لو شرط الربح كله لرب المال كان بضاعة ولو شرط كله للمضارب كان قرضا هكذا في الكافي .
فلو قبض المضارب المال على هذا الشرط فربح أو وضع أو هلك المال بعد ما قبضه المضارب قبل أن يعمل به كان الربح للمضارب والوضيعة والهالك عليها كذا في المحيط"

احمد الر حمٰن

دار الافتاء، جامعۃ الرشید کراچی

01/رجب/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احمد الرحمن بن محمد مستمر خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب