021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
امامِ مسجد کی رہائش کے لیے وقف کردہ گھر کا حکم
79157وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

کچھ تفصیل کے بعد چند سوالات پیش خدمت ہیں:

 محلے والوں نے مسجد بنائی اور امام کی رہائش کے لیے گھر خریدا کہ جو امام ہوگا یہ اس کی رہائش ہوگی ۔  زید نے امامت شروع کی اور جو گھر مسجد والوں ( کمیٹی )نے دیا ، زید نے اسے مدرسہ بنالیا یعنی حفظ کی کلاسیں اور بنات کے لیے درس نظامی شروع کیا اور اپنی رہائش کے لیے اپنی ذمہ داری پہ الگ مکان لیا ہے کرایہ پر ۔ تقریباً بیس سال کا عرصہ اسی طرح گزرا۔  مدرسہ کے اخراجات  وہ زکوٰۃ اور لوگوں کے تعاون سے پورے کرتا ہے  ۔ اب زید مدرسے والے گھر کی تعمیر میں اضافہ کرکے نچلی منزل میں مدرسہ بحال رکھ کر اوپر والی منزل میں رہائش اختیار کرنا چاہتا ہے

  1. زید کے پاس جو کمیٹی والوں کی جگہ ہے کیا وہ اس میں تصرف کر سکتا ہے یعنی کمرے وغیرہ بناسکتا ہے اپنے اخراجات پر؟
  2. کیا مسجد والوں (کمیٹی) کے لیے اس جگہ کو بیچنا جائز ہے کہ زید  مسجد والوں سے وہ جگہ خرید لے؟
  3.  امام (زید) کے لیے وہ جگہ ذاتی استعمال یا مدرسہ کے لیے خریدنا کیسا ہے، یعنی مسجد کی کمیٹی کو پیسے دے کر؟
  4. اگر کل زید کو مکان چھوڑنا پڑے تو زید کمیٹی والوں سے اپنے کیے ہوئے اخراجات کا مطالبہ کرسکتا ہے؟

وضاحت: سائل کی زبانی (بذریعہ واٹس ایپ تحریری بھی) وضاحت سے معلوم ہوا کہ وہ  گھر مسجد کے امام کی رہائش کے لیے وقف تھا ۔بتصریح سائل کمیٹی کو گھر سے مدرسہ بنانے پر کوئی اعتراض نہیں ۔کمیٹی والوں کے الفاظ یہ ہے" ہم نے آپ کو رہائش دی ہے آپ جو مرضی کریں"۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جو جگہ واقف نے جس مقصد کے لئے وقف کی ہو اُسے اسی مقصد میں استعمال کرنا شرعاً لازم اور واجب ہے لہٰذا زید کا گھر کو رہائش کے بجائے مدرسہ کے لیے استعمال کرنا جائز نہیں ۔ احناف ؒ کے مفتیٰ بہٖ قول کے مطابق وقف ثابت ہونے کے بعد لازم ہوجاتا ہے، لہٰذا اسکو نہ بیچا جاسکتا ہے اور نہ ہبہ،عاریت،اجارہ وغیرہ پر دیا جاسکتاہےاور نہ اس میں میراث جاری ہوتی ہے۔ اگر وقف کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مال موجود نہ ہو تو وقف کے لیے بقدر ضرورت قرضہ لینا جائز ہے۔

ان تفصیلات کے ضمن میں اب سوالات کے جوابات ملاحظہ فرمائیں:

  1. رہائش کے لیے وقف شدہ گھر کی مزید تعمیر سے چونکہ واقف کا مقصد فوت نہیں ہورہا بلکہ اسی مقصد کی تکمیل کے لیے تعمیر ہورہی ہے تو تعمیر کرنا جائز ہے اور سائل کی زبانی وضاحت کے مطابق گھر کی حالت خستہ ہے تو اس کی مزید تعمیر  زیادہ مناسب ہےالبتہ تعمیر کا یہ اختیار متولّئ وقف کو حاصل ہوتا ہے جو مذکورہ سوال میں مسجد کی کمیٹی ہے۔ واضح رہے کہ متولی کی اجازت یا حکم سے کوئی اور آدمی بھی یہ تعمیر کرسکتا ہے لہٰذا مذکورہ صورت میں اگر مسجد کی کمیٹی زید کو اجازت دے تو اس کے لیے تعمیر کرنا جائز ہوگا۔
  2. گھر چونکہ مسجد کے امام کی  رہائش کےلیے وقف ہے لہٰذا اس کو بیچنا کمیٹی والوں کے لیے کسی طور پر جائز نہیں۔
  3. زید کے لیے موقوفہ گھر کو خریدنا کسی بھی مقصد کے لیے جائز نہیں ہے۔
  4. زید اپنے کیے ہوئے اخراجات کا مطالبہ کرسکتا ہے یا نہیں ، اس میں یہ تفصیل ہے کہ  اگر زید نے کمیٹی والوں کی اجازت سے بقدرِ ضروریات ِوقف اخراجات کیے ہوں تو وہ ان اخراجات کے بقدر مطالبے کا حقدار ہوگا  اور اگر زید نے اخراجات کمیٹی والوں کی اجازت کے بغیر کیے ہوں تو اس کو مطالبے کا حق حاصل نہیں ہوگا یا اجازت کے ساتھ لیکن ضرورت سے زائد کیے ہوں تو وہ زائد رقم کے مطالبے کا حقدار نہیں ہوگا اور وہ ان میں متبرّع شمار ہوگا۔
حوالہ جات
حاشية ابن عابدين (4/ 443)
وقد صرحوا بأن شرط الواقف كنص الشارع فأشبه الإرث في عدم قبوله الإسقاط.
الفتاوى الهندية (2/ 490)
لا يجوز تغيير الوقف عن هيئته فلا يجعل الدار بستانا ولا الخان حماما ولا الرباط دكانا إلا إذا جعل الواقف إلى الناظر ما يرى فيه مصلحة الوقف كذا في السراج الوهاج.
حاشية ابن عابدين (4/ 384)
  مطلب في استبدال الوقف وشروطه  قوله ( وجاز شرط الاستبدال به الخ ) اعلم أن الاستبدال على ثلاثة وجوه الأول أن يشرطه الواقف لنفسه أو لغيره أو لنفسه وغيره فالاستبدال فيه جائز على الصحيح وقيل اتفاقا
 والثاني أن لا يشرط سواء شرط عدمه أو سكت لكن صار بحيث لا ينتفع به بالكلية بأن لا يحصل منه شيء أصلا أو لا يفي بمؤنته فهو أيضا جائز على الأصح إذا كان بإذن القاضي ورأي المصلحة فيه
 والثالث أن لا يشرطه أيضا ولكن فيه نفع في الجملة وبدله خير منه ريعا ونفعا وهذا لا يجوز استبداله على الأصح المختار
 كذا حرره العلامة قنالي زاده في رسالته الموضوعة في الاستبدال وأطنب فيها عليه الاستدلال وهو مأخوذ من الفتح أيضا...... وأفاد صاحب البحر في رسالته في الاستبدال أن الخلاففي الثالث إنما هو في الأرض إذا ضعفت عن الاستغلال بخلاف الدار إذا ضعفت بخراب بعضها ولم تذهب أصلا فإنه لا يجوز حينئذ الاستبدال على كل الأقوال
 قال ولا يمكن قياسها على الأرض فإن الأرض إذا ضعفت لا يرغب غالبا في استئجارها بل في شرائها أما الدار فيرغب في استئجارها مدة طويلة لأجل تعميرها للسكنى على أن باب القياس مسدود في زماننا وإنما للعلماء النقل من الكتب المعتمدة كما صرحوا به.
حاشية ابن عابدين (4/ 353)
لو كان الموقوف دار شرط الواقف سكناها لأولاده ونسائه قال في الإسعاف تكون سكناها لهم ما بقي منهم أحد فلو لم يبق إلا واحد وأراد أن يؤجرها أو ما فضل عنه منها ليس له ذلك وإنما له السكنى فقط ولو كثرت أولاد الواقف وضاقت الدار عليهم ليس لهم أن يؤجروها وإنما تسقط سكناها على عددهم ومن مات منهم بطل ما كان له من سكناها ويكون لمن بقي منهم
الفتاوى الهندية (2/ 350)
وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولا يورث كذا في الهداية وفي العيون واليتيمة إن الفتوى على قولهما كذا في شرح أبي المكارم للنقاية
حاشية ابن عابدين (4/ 445)
صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة وصرح الأصوليون بأن العرف يصلح مخصصا.....وفي الأشباه في قاعدة العادة محكمة أن ألفاظ الواقفين تبنى على عرفهم كما في وقف فتح القدير ومثله في فتاوى ابن حجر ونقل التصريح بذلك على جماعة من أهل مذهبه وفي جامع الفصولين مطلق الكلام فيما بين الناس ينصرف إلى المتعارف وقدمنا نحوه عن العلامة قاسم وقد مر وجوب العمل بشرط الواقف
حاشية ابن عابدين (4/ 439)
  مطلب في الاستدانة على الوقف  قوله ( لا تجوز الاستدانة على الوقف أي إن لم تكن بأمر الواقف وهذا بخلاف الوصي فإن له أن يشتري لليتيم شيئا بنسيئة بلا ضرورة لأن الدين لا يثبت ابتداء إلا في الذمة واليتيم له ذمة صحيحة وهو معلوم فتتصور مطالبته أما الوقف فلا ذمة له
 والفقراء وإن كانت لهم ذمة لكن لكثرتهم لا تتصور مطالبتهم فلا يثبت إلا على القيم وما وجب عليه لا يملك قضاء من غلة للفقراء ذكره هلال
 وهذا هو القياس لكنه ترك عند الضرورة كما ذكره أبو الليث وهو المختار أنه إذا لم يكن من الاستدانة بد تجوز بأمر القاضي إن لم يكن بعيدا عنه لأن ولايته أعم في مصالح المسلمين وقيل تجوز مطلقا للعمارة  والمعتمد في المذهب الأول
 أما ما له منه بد كالصرف على المستحقين فلا كما في القنية إلا الإمام والخطيب والمؤذن فيما يظهر لقوله في جامع الفصولين لضرورة مصالح المسجد ا هـ  وإلا للحصر والزيت بناء على القول بأنهما من المصالح وهو الراجح   هذا خلاصة ما أطال به في البحر
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (5/ 226)
الاستدانة لأجل العمارة حيث لم يكن غلة قال في الذخيرة قال هلال إذا احتاجت الصدقة إلى العمارة وليس في يد القيم ما يعمرها فليس له أن يستدين عليها لأن الدين لا يجب ابتداء إلا في الذمة وليس للوقف ذمة والفقراء وإن كانت لهم ذمة إلا أنهم لكثرتهم لا تتصور مطالبتهم فلا يثبت الدين باستدانة القيم إلا عليه ودين يجب عليه لا يملك قضاءه من غلة هي على الفقراء وعن الفقيه أبي جعفر أن القياس هذا لكن يترك القياس فيما فيه ضرورة نحو أن يكون في أرض الوقف زرع يأكله الجراد ويحتاج إلى النفقة لجمع الزرع أو طالبه السلطان بالخراج جاز له الاستدانة لأن القياس يترك للضرورة.

عنایت اللہ عثمانی

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

30 جمادی الثانیۃ 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عنایت اللہ عثمانی بن زرغن شاہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب