021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
حج کس پر فرض ہوتا ہے
79142حج کے احکام ومسائلکن لوگوں پر حج فرض ہے؟

سوال

ایک شخص کرائے کے گھر میں رہتا ہے  اور اسکا اپنا ذاتی مکان نہیں ہے ۔اس نے ایک زمین مکان بنانے کی نیت سے خریدی ہے ۔ ابھی تعمیر شروع نہیں کی لیکن اس زمین کی قیمت اتنی ہو گئی ہےکہ اسے بیچ کر حج کیا جا سکے۔ تو کیا اس پر حج فرض ہو گیا؟ اگر اس نے زمین تجارت کی نیت سے خریدی  اور اب قیمت بڑھ جانے کی وجہ سے اس زمین کو بیچ کر حج ہو سکتا ہے۔ تو اس شخص کے لیے پہلے اپنا  گھر بنانا ضروری ہے یا حج کرنا؟
اگر اس  شخص کےماں باپ زندہ ہوں اور اسکے والدین کا اپنا گھر ہو۔ لیکن چونکہ وراثت ابھی تقسیم نہیں ہو سکتی اس لیے اسکے والدین کے گھر کو تو اسکی ملکیت نہیں کہا جائیگا ۔ اسلئے اسکو کرایہ دار کہا  ہےاور  سچ میں وہ کرائے کے گھر میں ہی رہتا ہے اپنے والدین کے گھر میں نہیں

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کسی شخص پر حج فرض ہونے کے لیے لازمی ہے کہ اس کے پاس حوائج اصلیہ (اپنااور اہل وعیال کا نفقہ اور رہائش کے اخراجات)سے زائد اس قدر مال بچتا ہو جس سے وہ  حج  پر آنےوالے  اخراجات پورے کرسکے۔ذاتی مکان بھی چونکہ حوائج اصلیہ  میں سے ہے لہذا اگر سائل نے زمین مکان بنانے کے لیے ہی خریدی  ہے تو اس  زمین کو بیچ کر حج  کرنا فرض نہیں ہے، لیکن اگر  مکان بنانے کے لیے نقد رقم جمع کی ہو تو  اس پر حج فرض ہوجائے گا۔

اگر زمین تجارت کے لیے خریدی اور اس کی مالیت اتنی ہے کہ اس کو بیچ کر حج کیا جاسکے تو اس پر حج فرض ہوجائے گا۔

حوالہ جات
الهداية في شرح بداية المبتدي (1/ 132)
" الحج واجب على الأحرار البالغين العقلاء الأصحاء إذا قدروا على الزاد والراحلة فاضلا عن المسكن وما لا بد منه وعن نفقة عياله إلى حين عوده وكان الطريق آمنا
المحيط البرهاني  لمحمود النجاري (2/ 690)
وفي «الأصل»: إذا كان له دار يسكنها، وعبد يستخدمه وثياب يلبسها، ومتاع يحتاج إليه، لا تثبت به الاستطاعة، وذكر القدوري في «شرحه»: إذا كان له دار لا يسكنها وعبد لا يستخدمه، فعليه أن يبيعه ويحج به، وكل ذلك يشير إلى اعتبار الفراغ عن الحاجة الأصلية.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 462)
ومنه المسكن ومرمته ولو كبيرا يمكنه الاستغناء ببعضه، والحج بالفاضل فإنه لا يلزمه بيع الزائد.نعم هو الأفضل وعلم به عدم لزوم بيع الكل والاكتفاء بسكنى الإجارة بالأولى وكذا لو كان عنده ما لو اشترى به مسكنا وخادما لا يبقى بعده ما يكفي للحج لا يلزمه
حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 462)
(قوله ومنه المسكن) أي الذي يسكنه هو أو من يجب عليه مسكنه بخلاف الفاضل عنه من مسكن أو عبد أو متاع أو كتب شرعية أو آلية كعربية
النهر الفائق شرح كنز الدقائق (2/ 56)
(فضلت عن مسكنه) وعن مؤونته كما في المحيط لا ولم يقل عن داره إيماء إلى أنه لو كان له دار لا يسكنها كان عليه بيعها لعبد لا يستخدمه بخلاف ما لو كانت كبيرة يمكنه الاستغناء ببعضها للسكنى وأن يحج بالفائض حيث لا يجب عليه بيع الزائد نعم هو أفضل وعرف بهذا عدم وجوب الكل وإلا اكتفى بسكنى الإجارة بالأولى
الفتاوى الهندية (5/ 456)
وإن كان صاحب ضيعة إن كان له من الضياع ما لو باع مقدار ما يكفي الزاد والراحلة ذاهبا وجائيا ونفقة عياله ، وأولاده ويبقى له من الضيعة قدر ما يعيش بغلة الباقي يفترض عليه الحج ، وإلا فلا ،

عبدالقیوم   

 دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

01/رجب/1444

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالقیوم بن عبداللطیف اشرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب