021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دو بیویوں میں وقت کے اعتبار سے برابری کی تفصیل
79218نکاح کا بیانکئی بیویوں میں برابری کا بیان

سوال

میری دو بیویاں ہیں ۔ پہلی بیوی سے چار بچے ہیں جبکہ دوسری سے کوئی بچہ نہیں ہے ۔ میں نے ان دونوں کے درمیان اوقات کو اس طرح تقسیم کیا ہوا ہے :
پہلی بیوی اور بچے: ایک مکمل دن اور رات  (صبح 7:00بجےسے اگلی صبح7:00 تک) اس میں 9:00 amتا 3:00 pmمیرے آفس کا وقت ہوتا ہے اور آدھا گھنٹا ( 6:30-pm 7:00 pm)میں دوسری بیوی کو دیتا ہوں۔
دوسری بیوی: ایک مکمل دن اور رات  (صبح 7:00بجےسے اگلی صبح7:00 تک)  اس میں 9:00 amتا 3:00 pmمیرے آفس کا وقت ہوتا ہے اورچار گھنٹے 4:00-pm 8:00 pmمیں پہلی بیوی اور بچوں کو دیتا ہوں اس طرح پہلی بیوی اور بچوں کے دن دوسری بیوی کو آدھا گھنٹا ملتا ہے جبکہ دوسری بیوی کے دن ،پہلی بیوی اور بچوں کو چار گھنٹے ۔ اسی طرح اتوار چھٹی کے دن کی یہ ترتیب ہے کہ پہلی بیوی اور بچوں کو چھے گھنٹے ملتے ہیں اور پہلی بیوی کو وہی آدھا گھنٹا ۔

میری سمجھ یہ ہے کہ پہلی بیوی کے ساتھ کیونکہ بچے بھی ہیں اس لیے انہیں دن میں زیادہ وقت ملنا چاہئیے ۔ کیا دن اور رات کی یہ ترتیب اسلام کے مطابق ہے؟ نیز یہ واضح کر دیں کہ اس ضمن میں بیویوں کا حق کیا ہے (کم ازکم کون سے اوقات ان کا حق ہیں)اور میرا اختیار کیا ہے۔ یعنی میں ان 24 گھنٹوں میں کتنے اوقات پر اختیار رکھتا ہوں  کہ جس طرح مرضی ان کو طے کروں اور کون سے اوقات بیویوں اور بچوں کے حقوق میں آتے ہیں ؟

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

دوسری بیوی کی طرف سے وضاحت: 

          میں اپنے شوہر کی دوسری بیوی ہوں۔ اُن کا اپنی پہلی بیوی سے نکاح برقرار ہے ،جن سے اُن کے چار بچے ہیں۔ میری ابھی  کوئی اولاد نہیں ہے۔ ہمارے شوہرایک دن میری طرف گزارتے ہیں اور ایک دن اپنی پہلی بیوی کی طرف۔ان کے اوقات کی ترتیب  مندرجہ ذیل ہے :
پہلی بیوی:
 7:00amتا 9:00am پھر 3:00pmتا6:30pmپھر 7:00pmتا 7:00 am اس میں9:00amتا3:00 pmان کا آفس میں گزرتا ہے اور  آدھا گھنٹا 6:30pmتا 7:00pmدوسری بیوی کے ساتھ گزرتا ہے۔
دوسری بیوی :
-7:00am 9:00am  پھر  3:00-pm4:15 pmپھر  8:15-pm7:00 am اس میں9:00amتا3:00pmان کا آفس میں گزرتا ہے اور  چار  گھنٹے 4:00pmتا 8:00 pmپہلی بیوی کے ساتھ گزرتے ہیں۔سارے دِنوں میں  یہی ترتیب رہتی ہے لیکن اگر اتوار کا دن ہو، جس دن چھٹی ہوتی ہےتواگر  پہلی بیوی کی باری ہو تو مجھے وہی آدھا گھنٹا ملتا ہے لیکن اگر میری باری  ہو توپہلی کو 4 گھنٹوں کے علاوہ مزید 2  گھنٹے مل جاتے ہیں ۔اس کے علاوہ بھی بعض اوقات میرے خاوند پہلی بیوی اور بچوں کو عام دنوں میں 4 سے زیادہ گھنٹے بھی دےدیتے ہیں۔اس طرح میرےخاوندمیرےدنوں میں کم از کم 4 گھنٹے اور اتوارکے دن 6گھنٹے پہلی بیوی اور بچوں کےساتھ  گزارتےہیں جبکہ پہلی بیوی کےدنوں میں مجھے صرف آدھا گھنٹا ملتا ہے ۔میرے خاوند کا یہ کہنا ہے کہ کیونکہ پہلی بیوی سے بچے ہیں اور مجھ سے نہیں ہیں اس لیےبیوی کے علاوہ ان  کا بھی حق ہے  اس لیے انہیں زیادہ گھنٹے دیے جا رہے ہیں۔اس  میں مزید میں یہ بتانا چاہتی ہوں کہ4:00PMتا8:00PM وہ اوقات ہیں جو کہ خاوند بیوی کے تعلق کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔
کیا یہ نا انصافی نہیں ہے اور کیا اس طرح میرے خاوند گناہ گار تو نہیں ہو رہے ؟نیز میں یہ بھی جاننا چاہتی ہوں کہ میرے خاوند کے اوقات میں میرا حق  کیا ہے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ایک سے زائد بیویوں کے درمیان  جو برابری کرنا شرعاً لازم ہے اس سے مراد نفقہ(کھانے پینے، لباس اوررہن سہن میں)اوررات گزارنے میں برابری کرنا ہے۔دن کے اوقات کو برابرتقسیم کرنا شرعاً لازم نہیں،البتہ دن کے وقت میں اس حد تک برابری ضروری ہے کہ ہر بیوی کو کچھ نہ کچھ وقت ضرور دےیعنی ایسا نہ ہو کہ ایک بیوی کے پاس دن کا پورا وقت گزاردے اور دوسری بیوی کے پاس بالکل نہ  جائے۔

لہٰذاصورت مسئولہ میں  آپ کی طے کردہ صورت شرعاً جائز ہے، کیونکہ دن کے وقت میں آپ کوشرعاًاختیار ہے کہ دن کےاوقات جیسے چاہیں ضرورت کے مطابق تقسیم کریں لیکن دن میں بھی اس  بات کا خیال رکھنا لازم ہوگا کہ ایسا نہ ہو کہ آپ سارا وقت ایک ہی بیوی کو دےدیں اور دوسری بیوی کوبالکل وقت نہ دیں۔

حوالہ جات
فتح القدير (7/ 367)
وكذا ما روى أصحاب السنن الأربعة والإمام أحمد والحاكم من حديث أبي هريرة عنه صلى الله عليه وسلم أنه قال { من كانت له امرأتان فمال إلى إحداهما جاء يوم القيامة وشقه مائل } أي مفلوج
رد المحتار (10/ 359)
( قوله لكن إلخ ) قال في الفتح : لا نعلم خلافا في أن العدل الواجب في البيتوتة والتأنيس في اليوم والليلة ، وليس المراد أن يضبط زمان النهار ، فبقدر ما عاشر فيه إحداهما يعاشر الأخرى بل ذلك في البيتوتة وأما النهار ففي الجملة ا هـ يعني لو مكث عند واحدة أكثر النهار كفاه أن يمكث عند الثانية ولو أقل منه بخلافه في الليل نهر
بدائع الصنائع (2/ 332)
حتى لو كانت تحته امرأتان حرتان أو أمتان يجب عليه أن يعدل بينهما في المأكول والمشروب والملبوس والسكنى والبيتوتة
رد المحتار (10/ 339)
( يجب ) وظاهر الآية أنه فرض نهر ( أن يعدل ) أي أن لا يجور ( فيه ) أي في القسم بالتسوية في البيتوتة ( وفي الملبوس والمأكول ) والصحبة ( لا في المجامعة ) كالمحبة بل يستحب.
رد المحتار (10/ 341)
( قوله وفي الملبوس والمأكول ) أي والسكنى ، ولو عبر بالنفقة لشمل الكل.

عمر فاروق

دار الافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

۲/ رجب المرجب/۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عمرفاروق بن فرقان احمد آفاق

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے