021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والدنےوصیت کی کہ حکیمی نسخےکسی کونہ دیناتوکیاحکم ہوگا؟
79289وصیت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

سوال:کیافرماتےہیں علمائےدین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ کےبارےمیں

ایک حکیم صاحب(جوکہ اب فوت ہوچکےہیں)کی خدمت میں ایک شخص کئی دہائیوں یعنی عرصےسےآتاجاتاتھا،حکیم صاحب مرحوم کےساتھ اس کےاچھے تعلقات  ہوگئےتھے،یہ آنے والا شخص بھی حکیم(معالج) ہے،حکیم صاحب مرحوم نے وفات سےپہلےعلاج معالجےکاتمام کام ونسخہ جات اپنےقابل بیٹے کویہ کہہ کرسکھادیےکہ میرےبتائےہوئےنسخہ جات اورعلم العلاج کےرموزآپ کی اہلیت کےبدولت سونپ رہاہوں،اسےسنبھال کر رکھنااورکسی کوبھی بتانااورسکھانا نہیں ہے ۔

اب حکیم صاحب مرحوم کی خدمت میں کئی دہائیوں سےآنےوالےشخص (معالج)کو وہ نسخہ جات وعلم العلاج کےرموزدرکارہیں،لیکن حکیم مرحوم کابیٹااپنےوالد محترم کی وصیت کاحوالہ دےکرعلم العلاج  کےوہ رموزو نسخہ جات مذکورہ شخص کےسپردکرنےسےانکارکررہاہےکہ میرےوالد مرحوم کی وصیت کےخلاف کرناجائزنہیں ہے،اورہاں اگرمیرےلیےایساکرناجائزہوتوآپ کسی مستند ادارےسےفتوی لاکر پیش کردیں،میں علم العلاج کےرموز وتمام نسخہ جات آپ کےحوالےکردونگا،پوچھنایہ ہےکہ کیاازروئےشریعت حکیم مرحوم کےبیٹے کےلیےیہ جائزہےکہ وہ اپنےوالدمرحوم کی وصیت کےبرخلاف علم العلاج کےرموز وتمام نسخہ جات اپنےوالدمرحوم کی خدمت میں آنےوالےحکیم صاحب کےسپردکردے،جبکہ خدمت میں آنےجانےوالا شخص حکیم ہونےکی بناءپراس علم کااہل بھی ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ بالا وصیت پرعمل کرناشرعا درست نہیں،کیونکہ اس طرح کی وصیت پرعمل کرنا بخل کےحکم میں آتاہےاوربخل پرقرآن وحدیث میں سخت قسم کی وعیدیں ہیں،لہذاپہلی بات تو یہ ہےکہ ایسی وصیت کرنی نہیں چاہیے،دوسرایہ کہ اگرکسی نے اس طرح کی وصیت کردی تو اس وصیت پرعمل کرناشرعا ضروری نہیں ہوگا،لہذا بیٹے پرلازم ہےکہ اس طرح کی وصیت پرعمل نہ کرےبلکہ  اپنی زندگی میں  علم العلاج کےرموز اورنسخہ جات کو اس کےاہل لوگوں کےحوالےکردےتاکہ یہ علم مزید پھیلےاوراس کےوالدکےلیےصدقہ جاریہ بنے،اس طرح اس کےوالد کومزید ثواب ملےگا ان شاءاللہ ۔

صورت مسئولہ میں طلب کرنےوالا شخص اگرواقعتااہل  ہےتو شرعایہ نسخےدیےجاسکتےہیں،ہاں اگرطلب کرنےوالا اس کااہل  ہی نہ ہوتوپھریہ ضررعام کاباعث ہونےکی وجہ سےناجائزہوگا۔

حوالہ جات
الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَيَكْتُمُونَ مَا آَتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُهِينًا۔سورۃ النساء آیت 37:
"تفسير ابن كثير"2 / 303:وقوله: { وَيَكْتُمُونَ مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ } فالبخيل جَحُود لنعمة الله عليه لا تظهر عليه ولا تبين، لا في أكله (1) ولا في ملبسه، ولا في إعطائه وبذله، كما قال تعالى: { إِنَّ الإنْسَاَن لِرَبِّهِ لَكَنُودٌ. وَإِنَّهُ عَلَى ذَلِكَ لَشَهِيدٌ } [العاديات: 6 ، 7] أي: بحاله وشمائله، { وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ } [العاديات: 8] وقال هاهنا: { وَيَكْتُمُونَ مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ } ولهذا توعَّدهم بقوله: { وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُهِينًا } والكفر هو الستر والتغطية، فالبخيل يستر نعمة الله عليه ويكتمها ويجحدها، فهو كافر لنعم الله عليه۔
"تفسير ابن كثير "2 / 303:
وقد حمل بعضُ السلف هذه الآية على بخل اليهود بإظهار العلم الذي عندهم، من صفة النبي صلى الله عليه وسلم وكتمانهم ذلك؛ ولهذا قال: { وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُهِينًا } رواه ابن إسحاق، عن محمد بن أبي محمد، عن عكرمة أو سعيد بن جُبَيْر، عن ابن عباس. وقاله مجاهد وغير واحد۔۔۔ولا شك أن الآية محتملة لذلك، والظاهر أن السياق في البخل بالمال، وإن كان البخل بالعلم داخلا في ذلك بطريق الأولى؛ فإن سياق الكلام في الإنفاق على الأقارب والضعفاء، وكذا الآية التي بعدها۔
"سنن الترمذي " 5 / 29:عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم من سئل عن علم ثم كتمه ألجم يوم القيامة بلجام من نار ۔۔۔۔قال أبو عيسى حديث أبي هريرة حديث حسن صحيح۔
"رد المحتار"28 /  443: عبارته والوصية أربعة أقسام واجبة كالوصية برد الودائع والديون المجهولة ، ومستحبة كالوصية بالكفارات وفدية الصلاة والصيام ونحوها ومباحة كالوصية للأغنياء من الأجانب والأقارب ، ومكروهة كالوصية لأهل الفسوق والمعاصي ۔
"رد المحتار"28 /  444: ( قوله ومكروهة لأهل فسوق ) يرد عليه ما في صحيح البخاري لعل الغني يعتبر فيتصدق والسارق يستغني بها عن السرقة والزانية عن الزنا وكان مراده ما إذا غلب على ظنه أنه يصرفها للفسوق والفجور ا هـ رحمتي ۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی

08/رجب     1444ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب