021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میت کے ذمے واجب الاداء کرایہ کی ادائیگی کا طریقہ، جبکہ مالک معلوم نہ ہو
79273میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

اگر ایک شخص کسی دور میں دبئی میں رہائش پذیر تھا، وہاں اس پر گھر کا کرایہ واجب الاداء تھا، پھر وہ پاکستان منتقل ہوا، یہاں مستقل رہائش اختیار کرلی اور یہیں فوت ہوا۔ اب نہ تو اس مالکِ مکان کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ زندہ ہے یا فوت ہوا ہے اور نہ کل واجب الاداء رقم معلوم ہے۔ اب اس کے ترکہ میں سے اس کی ادائیگی کی کیا صورت ہوگی؟ نیز اگر مالکِ مکان کی معلومات کے لیے یا رقم کی ادائیگی کے

لیے اگر کوئی دبئی کا سفر کرتا ہے تو کیا ترکہ سے اس سفر کے اخراجات لیے جاسکتے ہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر کسی شخص کا انتقال ہوجائے تو اس کے قرضے اور دیون اس کے ترکہ میں سے ادا کرنا ورثا کے ذمے لازم ہے، میت کے ذمے واجب الاداء کرایہ بھی دین ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مرحوم کے ورثا اولاً ممکنہ ذرائع سے اس مالکِ مکان کو تلاش کریں، دبئی میں مرحوم کے پڑوسیوں یا جان پہچان والوں سے رابطہ کریں، مواصلات کے جدید ذرائع، سوشل میڈیا وغیرہ کے ذریعے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کریں، اگر اس طرح مالکِ مکان یا اس کے ورثا تک رسائی ہوجائے تو ان سے واجب الاداء کرایہ معلوم کر کے ان کو دیدیں۔

اگر اس طرح مالکِ مکان تک رسائی نہ ہو اور غالب گمان یہ ہو کہ کچھ خرچہ کر کے مالک کو تلاش کرنا ممکن ہے اور یہ خرچہ کوئی اپنی طرف سے کرنے کے لیے تیار نہ ہو تو یہ خرچہ ترکہ سے کرنے کی گنجائش ہے، لیکن ایسا طریقہ اختیار کرنا ضروری ہوگا جس پر کم سے کم خرچہ آئے۔ لہٰذا ایسی صورت میں ترکہ سے کثیر رقم خرچ کر کے یہاں سے جانے کے بجائے وہاں موجود جان پہچان والے لوگوں سے یہ کام کرایا جائے، اگر وہاں موجود کوئی بھی شخص مفت میں یہ کام کرنے کے لیے تیار نہ ہو تو اس کو ترکہ سے مناسب اجرت دے کر مالک یا اس کے ورثا کو تلاش کرایا جائے، اگر مالک مل جائے تو جتنا کرایہ بنتا ہو، وہ اسے دیدیں، یا پھر اس کی وفات کی صورت میں اس کے ورثا کو دیدیں۔  

لیکن اگر مذکورہ بالا طریقوں میں سے کسی طریقے سے مالکِ مکان یا اس کے ورثا تک رسائی نہ ہو تو پھر ورثا سب سے پہلے دستیاب معلومات میں غور وفکر کر کے قریب ترین اندازہ لگائیں کہ مرحوم نے کتنے عرصے کا کرایہ ادا نہیں کیا ہوگا، اس کے بعد اس زمانے میں وہاں اس طرح کے مکان کی اجرتِ مثل معلوم کریں، اور پھر اتنے عرصے کی جو مجموعی اجرتِ مثل بنتی ہو، وہ مرحوم کا ذمہ فارغ کرنے کے لیے مالکِ مکان کی طرف سے صدقہ کردیں۔  

حوالہ جات
العناية (8/ 441):
وأجرة الكيال وناقد الثمن إذا باع المكيل مكايلة أو الموزون موازنة أو المعدود عددا واحتاج إلی أجرة الكيال والوزان والعداد فهي على البائع؛ لأن التسليم واجب عليه، وهو لا يحصل  إلا بهذه الأفعال وما لا يتم الواجب إلا به فهو واجب .
البحر الرائق (1/ 64):
   ما لا يتم الواجب إلا به، فهو واجب.
المبسوط للسرخسي (10/ 321):
كتاب التحري:
قال رضي الله عنه: اعلم بأن التحري لغةً هو الطلب والابتغاء كقول القائل لغيره اتحرى مسرتك أي أطلب مرضاتك قال تعالى {فأولئك تحروا رشدا} [الجن: 14]. وهو والتوخي سواء، إلا أن لفظ التوخي يستعمل في المعاملات، والتحري في العبادات. قال صلى الله عليه وسلم للرجلين الذين اختصما في المواريث إليه: "أذهبا وتوخيا واستهما وليحلل كل واحد منكما صاحبه"، وقال صلى الله عليه وسلم في العبادات: "إذا شك أحدكم في صلاته فليتحر الصواب". وفي الشريعة عبارة عن "طلب الشيء بغالب الرأي عند تعذر الوقوف على حقيقته".
 وقد منع بعض الناس العمل بالتحري؛ لأنه نوع ظن، والظن لا يغني من الحق شيئا، ولا ينتفي الشك به من كل وجه، ومع الشك لا يجوز العمل. ولكنا نقول: التحري غير الشك والظن، فالشك أن يستوى طرف العلم بالشيء والجهل به، والظن أن يترجح أحدهما بغير دليل، والتحري أن يترجح أحدهما بغالب الرأي، وهو دليل يتوصل به إلى طرف العلم وإن كان لا يتوصل به إلى ما يوجب حقيقة العلم، ولأجله سمى تحريا، فالحر اسم لجبل على طرف المفاوز.
 والدليل على ما قلنا: الكتاب والسنة. (1) أما الكتاب فقوله تعالى {فامتحنوهن الله أعلم بإيمانهن فإن علمتموهن مؤمنات} [الممتحنة: 10]، وذلك بالتحري وغالب الرأي، فقد أطلق عليه العلم. (2) والسنة قوله صلى الله عليه وسلم: "المؤمن ينظر بنور الله"، وقال صلى الله عليه وسلم: "فراسة المؤمن لا تخطئ"، وقال صلى الله عليه وسلم لوابصة: "ضع يدك على صدرك، فالإثم ما حاك في قلبك وإن أفتاك الناس". (3) وشيء من المعقول يدل عليه؛ فإن الاجتهاد في الأحكام الشرعية جائز للعمل به، وذلك عمل بغالب الرأي، ثم جعل مدركا من مدارك أحكام الشرع وإن كان لا يثبت به ابتداء، فكذلك التحري مدرك من مدارك التوصل إلى أداء العبادات وإن كانت العبادة لا تثبت به ابتداء، والدليل عليه أمر الحروب فإنه يجوز العمل فيها بغالب الرأي مع ما فيها من تعريض النفس المحترمة للهلاك.
فإن قيل: ذلك من حقوق العباد، وتتحقق الضرورة لهم في ذلك كما في قيم المتلفات ونحوها، ونحن إنما أنکرنا هذا في العبادات التي هي حق الله تعالیٰ. 
قلنا: في هذا أیضا معنی حق العبد، وهو التوصل إلی إسقاط ما لزمه أداؤه، وکذلك في أمر القبلة؛ فإن التحري لمعرفة حدود الأقاليم، وذلك من حق العبد، وفي الزكاة التحري لمعرفة صفة العبد في الفقر والغنى، فيجوز أن يكون غالب الرأي طريقا للوصول إليه.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

     9/رجب المرجب/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب