021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زندگی میں جائیداد کی تقسیم
79297میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

    والد گرامی 2007 ء میں اللہ کو پیارے ہوگئے ، ابھی خاندان کا نقشہ کچھ اس طرح سے ہے:

۱۔ زوجہ /بیوہ  ۲۔ بیٹا  ۳۔ بیٹی(غیر شادی شدہ ،معذور)  ۴۔بیٹی(شادی شدہ) ۵۔بیٹا (متوفی قبل وفات الوالد) ۶۔بیٹا   ۷۔ بیٹا  ۸۔ بیٹا  ۹۔بیٹی (شادی شدہ) ۱۰۔بیٹی (شادی شدہ)

وضاحت:سائل نے بتایا کہ والد کے انتقال کے وقت ان کے والدین یعنی سائل کے دادا،دادی حیات نہیں تھے۔

تفصیل اثاثہ جات:-

  1. کل زمین؛  88کنال تقریباً
  2. دوکان (کمرشل پراپرٹی) ؛ دو دکانوں کی جگہ موجود ہے اور ایک دکان ڈبل اسٹوری تعمیر شدہ ہے
  3.   ایک  16 کنال قطعہ اراضی (متروکہ رقبہـ بیت المال سے) سرکاری طور پر الاٹمنٹ
  4. مکانات؛ دو مکانات تکمیل شدہ اور ایک مکان زیر ِ تعمیر

          مندرجہ بالا اثاثہ جات کی تقسیم قبلہ والد گرامی نے خود ہی اپنی زندگی میں کردی تھی، اور ایک تحریر بصورتِ وصیت تحریر کردی تھی ، جو بعد ازاں ان کی زندگی ہی میں کہیں گم بھی ہوگئی تھی۔والد صاحب نے ساری زمین وجائیداد صرف ہم بیٹوں کے نام بصورتِ تحریر لکھ دی تھی، جبکہ ہماری والدہ محترمہ اور بہنوں کے حصے میں کچھ بھی نہیں آیا۔

          سماجی رسم و رواج ، علاقائی کلچر ، صدیوں پرانی روایات بد قسمتی سے اتنی مضبوط ہیں کہ ہمارے معاشرے میں ان کو زیادہ فالو کیا جاتا ہے، جبکہ شریعت اور وراثت کے معاملے میں علم و آگاہی کا شدید فقدان ہے۔ علماء محراب و منبر بھی خاموش ہیں۔

چند سوالات

 کیا اپنی زندگی میں کوئی بھی سربراہ گھرانہ بذریعہ تحریر یا زبانی طور پر اپنی جائیداد منقولہ و غیر منقولہ ، اپنی صوابدید کے ساتھ تقسیم کر سکتے ہیں؟ جس میں کسی کو زیادہ حصہ ملا ہو، کسی کو کم؟جبکہ خواتین کو سماجی نظام ، مقامی روایات کی وجہ سے محروم رکھا جائےیا زندگی میں بھی تقسیم ِ جائیداد پر وہی فارمولہ لاگو ہوگا جو بعد از مرگ وراثت پر ہوتا ہے ؟

          کیا زندگی میں تقسیم پر بھی شرعی حصص کے مطابق ہی تقسیم کرنا لازم ہےیا کوئی رعایت ہوجود ہے، بالخصوص جب خاندان میں کسی کو اعتراض بھی نہ ہو۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

موت سے پہلے جائیداد کی تقسیم شرعاً ہبہ(تحفہ)شمار ہوتی ہے  اور ہبہ (تحفہ ) کے مکمل ہونے کے لئے اس پر قبضہ اور اس میں تصرف کا اختیار ملنا ضروری ہے، صرف تحریر کردینے یا  زبان سے کہہ دینے سے ہبہ مکمل نہیں ہوتا ۔

اور اپنی زندگی ہی میں جائیداداپنی  اولاد میں تقسیم کیسے کی جائے،اس میں افضل تو یہ ہے کہ تمام اولاد یعنی لڑکوں اور لڑکیوں سب کو برابر برابر حصہ دیا جائے، لیکن اگر میراث کے مطابق یعنی لڑکے کو لڑکی کے حصہ کا دگنا  دیا جائے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔ کسی ایک یا چند بچوں کو کسی مصلحت کی وجہ سے دوسروں سے زیادہ حصہ دینا جائز ہے، بلاوجہ کمی بیشی کرنا  مکروہ تنزیہی ہے، لیکن اگر نقصان پہچانے کی نیت سے اولاد مٰیں سے کسی کو جائیداد سے بالکل محروم کردیا یابہت معمولی سا حصہ دیا تو یہ ناجائز ہے۔

حوالہ جات
تكملة حاشية رد المحتار (2/ 302)
قوله: (بخلاف الهبة) الظاهر أنه لا بد من القبض في الهبة، وإلا فلا اعتبار لها
رد المحتار (18/ 8)
وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير " { اتقوا الله واعدلوا في أولادكم } " فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى ، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة ..وفي الخانية ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة ، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى وقال محمد : ويعطي للذكر ضعف الأنثى ، وفي التتارخانية معزيا إلى تتمة الفتاوى قال : ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف ، وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف وقد أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث ، وتبعه أعيان المجتهدين ، وأوجبوا التسوية بينهم وقالوا يكون آثما في التخصيص وفي التفضيل

عمر فاروق

دار الافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

۱۴/رجب الخیر/۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عمرفاروق بن فرقان احمد آفاق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب