021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بدخلق والد سے تنگ جوان بیٹی کیا کرے؟
79326جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہوں- 36 سال کی ہوں اور اپنے والد کے دوغلے پن سے تنگ آ چکی ہوں-میرے والدین کی آپس میں بنی نہیں اور والد نے بچپن میں ہمیں گھر سے نکال دیا تھا اور تین سال بعد واپس آنے دیا، خاندانی دباؤ پر اور پھر اپنی کزن اورانکی نانی جو ساتھ رہتےتھے انکے حوالے کر دیا جن کا کافی برا رویہ تھا، پر والد کے سامنے مناسب تھا۔کبھی ہم نے بتانے کی کوشش کی تو ذلیل کیے گئے، بلکہ پہلے نکالے گئے بھی اسی لیے تھے،کبھی کبھی تو مارتے بھی تھے، وہ دن ہے اور آج کا دن ہے ،امی کے حقوق کبھی پورے نہیں کئے۔ میں نے کبھی دونوں کو ایک کمرے میں ساتھ رہتے تک نہیں دیکھا۔ امی نے صبر کيا اور اللہ سے لو لگا لی،لیکن نفسیاتی مسائل کا شکارہوگئی ہیں اور والد کو آج بھی احساس نہیں۔ مجھے بچپن سے سوائےاسکول اورکھانےکےہرچیزکےليےترسايا۔مجھےاور والدہ کو 100روپے کے جوڑے کے ليے منع اور ذلیل کرنا اور ميری آنکھوں کے سامنے اپنے کزن کو 3 لاکھ کاروبار کے ليے تحفتہ کے طور پر دینا۔ موڈ اچھا ہے تو اچھے سے بات کرنا اور کچھ لے دينا ورنہ ذلیل کرنا سو زندگی ڈرتے ڈرتے گزری،والد ایسے ہوں تو رشتہ دار الگ ذلیل کرتے کبھی پیچھے کبھی سامنے۔ پیسوں کے معاملے میں ہماری طرف ہاتھ تنگ تھا اور سوتیلے چاچا اور ان کے بچوں کو بہت دیتے اور کچھ کہو اپنے حق کے لیے تو پھر لڑائیاں۔ 18 سال کی ہوئی تو حق کے لیے بولنا شروع کیا تو کافی جھگڑے ہوئے 3 سال تک اورجب میں نہ چپ ہوئی تو گھر سےنکال دیا،سو ایدھی چلی گئی، پھر وہ لے آئے بےعزتی کے ڈر سے اور معافی تلافی ہوئی، پر پھر بھی کبھی خصلۃ ایسی حرکتیں کرجاتے، لیکن میرا خیال رکھتے تھے تو لگا کہ احساس ہوا ہے تو چل رہا تھا۔ ابھی حال میں سوتیلے چاچا کے بیٹے کی شادی میں میں نے شرکت سے انکار کیا اور کہا آپ چلے جائیں کیونکہ کچھ ہی سال پہلے پچھلی شادی پر بے عزت کی گئی تھی اور شکوے پر بےغیرتی اور ڈھٹائی تھی اور اب مطلب تھا تو وہی ہر دفعہ کی طرح معاف کردو۔ ایک انسان کتنی دفعہ معاف کرسکتا ہے، جبکہ دوسرا ہر دفعہ معافی کو استعمال کرے اور پھر وہی حرکتیں کرے، خیر والد نے مجھے جھوٹ کہے، سوتیلے چاچاؤں کے ساتھ مل کر دھوکہ دیا، اوراس پر ناراض ہوئی تو مجھ پر غصہ کیا،میں دوست کی طرف چلی گئی تومیری دوست کو میرے اور والدہ کے بارے میں غلط سلط (جھوٹی) باتیں کیں اور ایدھی کا قصہ سنایا غلط رنگ میں جوکہ میں نے وائس نوٹ خود سنا، تب احساس ہوا وہ معافی وغیرہ تو سب ڈرامہ تھا۔ میرے دادا کی جائیداد دونوں سوتیلے چاچا کے پاس گئی اور والد نے خود صفر سے جائیداد بنائی اور سوتیلے چاچا کو بزنس میں بعد میں ساتھ لیا تھا اور انکو 35 فیصد جائیداد دےدی (65 کروڑ) جس میں باقاعدہ فیکٹری اور بنا بنایا بزنس سب ہے اور کہتے ہیں یہ اسکا حصہ تھا۔ مجھے ڈاکٹر بنایا زبردستی (مجھے کچھ اور بننا تھا) کہ ہسپتال کھوليں گے 20سال ہوگئےاس وعدےکواورکچھ نہ بنا۔سوال کرلوتوکہانیاں۔میں ذہنی طورپرشدیدمتاثرہوچکی ہوں۔مردذات پربھروسہ نہیں ہےاورشادی سےنفرت ہے،اسی لیےنہیں کہ زندگی سے تھک گئی ہوں اور اب برداشت ختم ہے،روز انہیں دیکھ کر، والدہ کی حالت دیکھ کر والد پر غصہ آتا ہے اور ساری ناانصافیاں یاد آتی ہیں جودوسرے لوگوں پر نکلتا ہے،والد کو کہہ دوں تو وہی کہ کیوں کہا اور جھوٹ اور ڈھٹائی اور پھر ہمارا جھگڑا۔ آج تک کوئی احساس نہیں۔ دو جگہيں میرے نام کی ہیں، لیکن مجھے اسمیں کوئی دلچسپی نہیں کہ کیا فائدہ جب انسان کو احساس نہ ہو اور بس آخری عمر میں زمین دے دو کہ سارے حق ادا ہو گئے،والدسےکہہ چکی ہوں،واپس لےلیں۔اب میں چاہتی ہوں کہ میں والدسےالگ ہوجاؤں،رہنے کاانتظام ہےمحفوظ جگہ پر۔ضرورت پڑنے پر خدمت کرنے آجاؤں گی، لیکن ساتھ رہ کر ہر وقت کی اذیت برداشت نہیں کرپارہی اور ذہنی طور پر شدید متاثر ہوں۔ والدہ کی مرضی ہے وہ جسکے ساتھ رہنا چاہیں۔ شادی نہیں کر سکتی کہ بھروسہ نہیں اور اپنی وجہ سے دوسرے کی زندگی برباد نہیں کرسکتی۔ اس معاملے پر آپ سے فتوی چاہيے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

دنیا مسافرخانہ اور آزمائش کی جگہ ہے، اس میں دین پر استقامت کے ساتھ ساتھ مصائب اور تکالیف پرصبراور نعمتوں پرشکر اوراور دستیاب وسائل پرقناعت کے ساتھ زندگی گزارنا ہی قابل تعریف طرز زندگی ہے،والد اگر چہ بد خلق ہو، لیکن اس کی بد خلقی کے نتیجے میں الگ رہائش اختیار کرنا نہ صرف یہ کہ شرعا جائز نہیں، بلکہ یہ اولادکے لیے بالعموم اورلڑکی ذات کے لیے بالخصوص معاشرتی واخلاقی لحاظ سے نہایت خطرناک اقدام ہے،اسی طرح شادی کے بغیر وقت گزارنا بالخصوص لڑکی کے لیے فی زمانہ نہ تو شرعا اس کی اجازت دی جاسکتی ہے اور نہ ہی معاشرتی حالات اس کی اجازت دیتے ہیں۔

 لہذا آپ کی پریشانی کا حقیقی حل یہ ہے کہ آپ  تمام اہل خانہ( والد ،والدہ سمیت آپ) کسی مستند اور معتبر بزرگ وعالم کی نیک مجلس میں آنے جانے کا معمول بنائیں یا کم از کم تبلیغ کے عمل سے وابستہ ہوجائیں انشاء اللہ کچھ عرصہ میں آپ کے مسائل خود حل ہوجائیں گے،نیز اپنے لیے اوراپنے والد کے لیے دعاؤں کا معمول بنائیں اور ان کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کریں اور خوش اخلاقی اور نرمی سے انہیں قائل کریں، انشاء اللہ ان کادل نرم ہوجائےگا۔

حوالہ جات
۔۔۔۔۔

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۱۴رجب۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب