021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نمازِ جنازہ میں سورۂ فاتحہ پڑھنے کا حکم
79383جنازے کےمسائلنماز جنازہ

سوال

مفتی محمد تقی صاحب عثمانی نے مفتی محمد رفیع صاحب عثمانی رحمہ اللہ تعالیٰ کی نمازِ جنازہ میں سورۂ فاتحہ پڑھی تھی، تو کیا ہم لوگ بھی نمازِ جنازہ میں سورۂ فاتحہ پڑھ سکتے ہیں؟

بعض مفتیانِ کرام کا کہنا ہے کہ نمازِ جنازہ میں دُعا کی نیت سے سورۂ فاتحہ پڑھی جا سکتی ہے۔ لیکن دوسری طرف صحیح بخاری میں حضرت (ابن) عباس رضی اللہ عنہ سے بھی نمازِ جنازہ میں سورۂ فاتحہ پڑھنا ثابت ہے، تو کیا ہم سورۂ فاتحہ اِس نیت سے پڑھ سکتے ہیں کہ حضرت (ابنِ) عباس رضی اللہ عنہ کی جو نیت تھی، وہی ہماری بھی نیت ہے، چاہے حضرت (ابنِ) عباس رضی اللہ عنہ کی نیت دعا کی ہو یا تلاوت کی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

نمازِ جناہ میں اصل مقصود اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء، حضور اکرم ﷺ پر درود اور میت کے لیے دعا ہے، اس لیے متأخرینِ حنفیہ نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ اگر جنازے کی نماز میں سورۂ فاتحہ حمد و ثناء کی نیت سے پڑھی جائے تو درست ہے، تلاوت کی نیت سے نہ پڑھی جائے۔

نیز حضرت عبد اللہ ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے بھی ثناء اور دعا کی نیت سے سورۂ فاتحہ پڑھی تھی، اور آپ رضی اللہ عنہ کا سنت فرمانا بھی اسی معنیٰ میں تھا کہ اس میں حمد و ثناء ہے اور نمازِ جناہ بھی حمد و ثناء کا مقام ہے۔ اس پر درجِ ذیل شواہد ہیں:

1. حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کی نیت قراءت کی ہوتی تو ہر تکبیر کے بعد فاتحہ پڑھتے، کیونکہ نمازِ جنازہ کی ہر تکبیر بمنزلۂ رکعت ہے، اور سورۂ فاتحہ نماز کی ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے۔

2. حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے صحیح سند کے ساتھ یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فاتحہ کے بعد سورت بھی پڑھی ہے، اس سے ثابت  ہوا کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فاتحہ اور سورت دونوں ثناء اور دعا کی نیت سے پڑھی تھیں، اس لیے کہ نمازِ جنازہ میں قراءت کی غرض سے فاتحہ کے ساتھ سورت ملانے کا کوئی بھی قائل نہیں ہے۔

3. حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عبد اللہ بن عمر، حضرت فضالہ بن عبید، حضرت ابوہریرہ، حضرت جابر بن عبد اللہ وغیرہم رضی اللہ تعالیٰ عنہم نمازِ جنازہ میں قراءتِ فاتحہ نہیں فرماتے تھے، حالانکہ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے انہی حضرات سے علم حاصل کیا ہے، لہٰذا یہ بھی قرینہ ہے کہ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے فعل و قول میں دعا کی نیت سے فاتحہ پڑھنا مراد ہے۔

حوالہ جات
المنتقى لابن الجارود (2/89):
"عن زيد بن طلحة التيمي، قال: سمعت ابن عباس، رضي الله عنهما قرأ على جنازة فاتحة الكتاب وسورة."
عمدة القاري شرح صحيح البخاري (12/448):
"ونقل عن أبي هريرة وابن عمر: ليس فيها قراءة، وهو قول مالك والكوفيين. قلت: وليس في صلاة الجنازة قراءة القرآن عندنا، وقال ابن بطال: وممن كان لا يقرأ في الصلاة على الجنازة. وينكر عمر بن الخطاب وعلي بن أبي طالب وابن عمر وأبو هريرة، ومن التابعين: عطاء وطاووس وسعيد بن المسيب وابن سيرين وسعيد بن جبير والشعبي والحكم، وقال ابن المنذر: وبه قال مجاهد وحماد والثوري.
الفتاوى الهندية (1/164):
"ولو قرأ الفاتحة بنية الدعاء فلا بأس به، وإن قرأها بنية القراءة لا يجوز؛ لأنها محل الدعاء دون القراءة، كذا في محيط السرخسي."

محمد مسعود الحسن صدیقی

دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

19/رجب الخیر/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد مسعود الحسن صدیقی ولد احمد حسن صدیقی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب