021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
رقم قرض دے کر اشیاء کی خرید وفروخت کا معاملہ کرنا
79373خرید و فروخت کے احکامقرض اور دین سے متعلق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام ا ن مسائل کے بارے میں کہ :

1           ہماری مارکیٹوں  میں دکانوں کا اسکریب شد ہ سامان مثلا  مرغیوں کا گند وغیرہ اٹھانے والی مختلف کمپنیاں ہوتی ہیں، وہ کمپنیاں دکانداروں کو کچھ ایڈوانس رقم قرض کے طور پر دیتی ہیں ، اور  دکانداروں سے معاہدہ کرتی ہیں کہ آپ نے اسکریب مال ہمیں ہی دینا ہے۔شروع میں ہی رقم طے کر لی جاتی ہے کہ اسکریب مال کی اتنی قیمت ملے گی ، مارکیٹ میں اگر چہ اس کی قیمت میں کم ہو یاز یادہ، لیکن جو شروع میں معاوضہ طے ہوجاتا ہے  دکاندار کو وہی قیمت ملتی ہے ۔ کیا اس طرح کمپنی کا دکاندار کو قرض دے کر اس کو پابند کرنا اور قرض پر نفع حاصل کرنا جائز ہے؟

2          ہوٹل والوں کو دودھ والے کچھ ایڈوانس رقم قرض کے طور پر دیتے ہیں  اور وہ ہوٹل والوں کو پابند کرتے ہیں کہ آپ نے دودھ ہم سے ہی لینا ہے ۔شروع میں ہی دودھ کی قیمت طے ہو جاتی ہے ، اگر چہ مارکیٹ میں دودھ کی قیمتوں میں تبدیلی ہوتی ر ہے، لیکن ان کے دودھ کا ریٹ وہی ہو گا جو شروع میں طے ہوا تھا ۔ اب  دودھ پتلا ہے یا گاڑھا  ، جیسا بھی ہے ہوٹل والوں کے لئے خرید نالازمی ہے، کیونکہ انھوں نے قرض کی رقم لی ہوئی ہے ۔ اسی دوران وہ قرض دینے والا اپنی رقم بھی وصول کرتا رہتا ہے ۔  اس طرح کا معاملہ کرنا اور قرض دینے والےکا نفع حاصل کر ناشر عا کیسا ہے؟

3           شوگر ملز والے زمینداروں کو کچھ رقم قرض کے طور پر دیتے ہیں اور ان کو اس بات کا پابند کرتے ہیں کہ آپ نے اپنا گنا ہماری شوگر مل کو دینا ہے اورزمیندار بھی پابند ہوتے ہیں کہ وہ اسی شوگر ملز کو گنا دیں۔  شوگر مل والے اپنی مرضی کا ریٹ دیتے ہیں، حالانکہ دیگر شوگر ملز میں اس مل کے ریٹ سے زیادہ ریٹ چل رہا ہوتا ہے ۔ کیا شوگر ملز والوں کا قرض کی رقم دے کر اس طرح نفع حاصل کرنا اور زمینداروں کو پابند کرنا شرعا درست ہے؟

تفصیلی جواب درکار ہے ۔

تنقیح: سائل سے بذریعہ واٹسایپ  یہ بھی معلوم ہوا کہ تینوں صورتوں میں ابتداء ً دی جانے والی رقم   مستقل قرض ہوتی ہے جس کی ادائی علیحدہ کی جاتی ہے  ۔ یہ رقم  دودھ ،گنّے وغیرہ کی ایڈوانس قیمت نہیں ہوتی۔

ابتداء میں جو ریٹ طے کیا جاتا ہے وہ بھی عام طور پر ایسا ہوتا ہے جو مارکیٹ سے کم ہوتا ہے یعنی اگر یہ مقروض نہ ہوتا تو ان کا معاملہ اس قیمت پر طے نہ ہوتا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

قرض دے کر اس پر کوئی  نفع حاصل کرنا جائز نہیں ، یہ ربا(سود ) کے حکم میں آتا ہے۔اسی طرح  قرض دیتے وقت کوئی  ایسی شرط لگانا جس سے قرض دینے والے کو کوئی اضافی فائدہ حاصل ہووہ بھی ناجائز ہے۔اس سے وہ شرط باطل ہوجاتی ہے۔

سوال میں ذکر کردہ تینوں مسائل میں  قرض کے ساتھ   مقروض پر یہ شرط لگائی گئی ہے کہ وہ اپنا مال قرض دینے والے کو ہی بیچے گا، یہ اضافی شرط  لگانا ناجائز ہے۔ مقروض پر اس شرط کی پابندی کرنا اوراس کی وجہ سے اپنا مال قرض دینے والے ہی  کو بیچنا  شرعا لازم نہیں۔

اگر مقروض اس کے بعد اپنا مال اسی قرض دینے والے کو فروخت کرتا ہے تو ضروری ہے کہ یہ خرید وفروخت مارکیٹ ریٹ پر کی جائے   ۔اگر قرض دینے والوں کی طرف سے ریٹ ایسا دیاجاتا ہے جو مارکیٹ ریٹ سے کم ہو تو یہ  قرض پر نفع حاصل کرنا ہوگا جو کہ جائز نہیں۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 166)
وفي الأشباه كل قرض جر نفعا حرام فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 165)
(و) فيها (القرض لا يتعلق بالجائز من الشروط فالفاسد منها لا يبطله ولكنه يلغو شرط رد شيء آخر فلو استقرض الدراهم المكسورة على أن يؤدي صحيحا كان باطلا) وكذا لو أقرضه طعاما بشرط رده في مكان آخر (وكان عليه مثل ما قبض) فإن قضاه أجود بلا شرط جاز ويجبر الدائن على قبول الأجود وقيل لا بحر
المبسوط (24/ 28)
 وإذا أقرض الرجل الرجل قرضا على أن يكفل به فلان ؛ كان جائزا حاضرا كان فلان أو غائبا ضمن أو لم يضمن ، وكذلك لو شرط أن يحيله به على فلان ؛ لأن القرض لا يتعلق بالجائز من الشروط فلا يفسده الباطل ، بخلاف البيع فإنه لو شرط فيه كفالة أو حوالة من مجهول أو معلوم غير حاضر ؛ لم يرض بذلك فالبيع فاسد ؛ لأن الفاسد من الشروط مبطل للبيع فإنه يتعلق بالجائز من الشروط

عبدالقیوم   

    دارالافتاء جامعۃ الرشید

‏    16/رجب/ 1444 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالقیوم بن عبداللطیف اشرفی

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب