021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تین مرتبہ طلاق دینے کا حکم
79480طلاق کے احکامتین طلاق اور اس کے احکام

سوال

میرے شوہر نے مجھے دس سال پہلے ایک طلاق دی تھی اور ان الفاظ میں کہا تھا کہ "میں نے طلاق دی تجھے" اور پھر دو سے تین دن بعد بہت معافیاں مانگی اور پھر اپنی مری ہوئی اماں کی قسم کھائی کے دوبارہ ایسا نہیں ہوگا۔ میں نے معاف کر دیا کہ ہو سکتا ہے کہ غصہ میں غلطی ہوگئی۔ اس کے بعد میں نے یہ بات منہ سے غصہ میں بھی نہیں نکالی اور نہ کبھی طعنہ دیا۔ لیکن یہ کئی دفعہ دھمکی دے چکے کہ میں سالی مجھے طلاق دے دوں گا،میں خاموش رہی۔

مئی 2022 میں بچوں کے جھگڑے پر انہوں نے بچوں کے سامنے مجھے پھر کہا "میں نے تجھے طلاق دی"۔ پھر دس بارہ دن بعد معافیاں شروع "اب ایسا نہیں ہو گا، ایک موقع دے دو"۔ پھر اس پر میں نے کہا کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟ دو دفعہ طلاق دے چکے ہیں۔ تو وہ اس پر انکار کرنے لگے کہ میں نے پہلے کب دی؟۔

اب 24 جنوری 2023ء کو پھر طلاق دی۔ پہلے کہا "میں تمھیں تیسری طلاق بھی دیتا ہوں ، طلاق۔ پھر ایک سیکنڈ بعد کہا طلاق۔ طلاق۔ طلاق۔ یہ بلکل غصہ کی حالت میں نہیں تھے۔ جب ان ہو نے 3 دفعہ دے دی تو میں نے سب کو بتا دیا۔ اب  سب کے سامنے قرآن اٹھانے کو تیار ہیں کہ میں نے پہلی والی نہیں دی تھی۔

دوسری اور تیسری طلاق سے مکر نہیں سکتے، کیونکہ وہ بچوں کے سامنے دی۔ میں اللہ کو حاضر و ناظر جان کر کہتی ہوں کہ انہوں نے طلاق دی تھی۔ اب اس طرح طلاق دے چکے ہیں۔ ہماری شادی کو 24 سال سے زیادہ ہوگئے اور تین بچے ہیں ۔ میری فیملی پاکستان میں فقہ حنفی کو Follow کرتے ہیں فاتحہ خوانی بھی لیکن جب سے پاکستان سے گئی میں اپنی نماز، روزہ اور حجاب کرتی ہوں لیکن فاتحہ خوانی نہیں۔ الحمد للہ بچے نماز ، روزہ اور دینی اخلاقیات کے پابند ہیں۔ براہ مہربانی اس میں راہنمائی فرما دیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسؤلہ میں دوسری اور تیسری طلاق  تو یقینی واقع ہیں البتہ پہلی طلاق میں میاں اور بیوی کا اختلاف ہے۔بیوی پہلی طلاق کا دعوی کر رہی ہے جبکہ شوہر منکِر ہے۔ اگر بیوی اپنے دعوی پر گواہ پیش کردے یا شوہر اقرار کر دے تو پہلی طلاق واقع ہوجائے گی اور اس طرح تین طلاقوں سے بیوی شوہر پر حرام ہوجائے گےاور بقیہ الفاظِ طلاق لغو ہوجائین گے۔اور اگر بیوی گواہ پیش نہ کر سکے اور شوہر بھی اقرار نہ کرے تو چونکہ شوہر نے مزید تین الفاظِ طلاق استعمال کیے ہیں، لہٰذا اُن الفاظ میں سے پہلے لفظ ہی سے تیسری طلاق واقع ہوچکی ہے جس کی وجہ سے نکاح ختم ہوچکا ہے۔

الغرض پہلی طلاق (جس میں اختلاف ہے) ثابت ہوجائے یا وہ تو ثابت نہ ہو لیکن بقیہ الفاظِ طلاق جو شوہر نے بولے ہیں، دونوں صورتوں میں تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں۔اب اس کی زوجہ اس پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے، نکاح ختم ہوچکا ہے، اب بیوی سے عدت کے دوران   رجوع کرنا یا عدت کے بعد دوبارہ  نکاح کرنا جائز نہیں ہے،نیزعورت  طلاق کے بعد سے  اپنی عدت(پوری تین ماہواریاں اگر حاملہ نہ ہو،اگر حاملہ ہو تو وضع حمل تک)گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔

حوالہ جات
"فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُۥ مِنۢ بَعدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوجًا غَيرَهُ" البقرۃ (آیۃ: 230)
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3/ 187):
"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: 230] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة"
الفتاوى الهندية (10/ 196):
"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية"

احمد الر حمٰن

دار الافتاء، جامعۃ الرشید کراچی

22/رجب/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احمد الرحمن بن محمد مستمر خان

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے