021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میراث اور ہبہ سے متعلق مسئلہ
80134میراث کے مسائلمناسخہ کے احکام

سوال

میرے والد کا ایک مکان میر پور خاص میں موجود ہے، میرے والد صاحب کے دو بیٹے شکیل احمد اور تنویر احمد اور دو بیٹیاں رفعت النساء اور فرحت النساء ہیں، میرے والد صاحب نے یہ مکان 1999ء میں ہم دونوں بیٹوں کے نام گفٹ کر دیا تھا، قانونی طور پر بھی رجسٹرڈ کروایا دیا تھا، البتہ ہم والدین کے ساتھ شروع سے ہی رہائش پذیر ہیں، کھانا پینابھی اکٹھا رہا ہے، نیز رجسٹری میں والد صاحب نے الگ الگ قبضہ نہیں دیا تھا۔ البتہ ان کی خواہش ضرور تھی کہ ہم دونوں بھائیوں کو نصف نصف حصہ مل جائے، لیکن رجسٹری میں تقسیم کی کوئی حد مقرر نہیں کی تھی۔

کچھ عرصہ کے بعد 2007ء میں بڑے بھائی شکیل احمد کا انتقال ہو گیا، مرحوم کے ورثاء میں والد صاحب، والدہ صاحبہ، اہلیہ، تین بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں۔

اس کے بعد 2008ء میں والدہ صاحبہ کا انتقال ہوا، ان کے والدین اور دادا، دادی کا انتقال پہلے ہو چکا تھا۔

اس کے بعد 2010ء میں والد صاحب کا انتقال ہوا، ان کے والدین اور دادا، دادی  کا انتقال بھی ان کی زندگی میں ہو چکا تھا۔

والد صاحب کے بعد 2012ء میں بڑے بھائی مرحوم کی اہلیہ کا انتقال ہوا، ان کے والدین اور دادا، دادی  کا انتقال بھی ان کی زندگی میں ہو چکا تھا۔

  1. سوال یہ ہے کہ کیا دونوں بھائی والد صاحب کے مکان کے مالک بن گئے تھے یا نہیں؟
  2. اگر مالک نہیں بنے تھے تو مذکورہ بالا ورثاء کے درمیان یہ مکان کس طرح تقسیم ہو گا؟ اور کس وارث کو کتنا حصہ ملے گا؟
  3. کیا بھائی اور اس کی اولاد وغیرہ اس مکان میں حصہ دار ہو گی؟ جبکہ بھائی کا انتقال والد کی زندگی میں ہو گیا تھا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شرعی اعتبار سے گفٹ یعنی ہبہ کے لیے ضروری ہے کہ موہوب لہ (جس کو گفٹ دیا گیا ہو) کو ہبہ کی گئی چیزعلیحدہ کر کےباقاعدہ اس کا قبضہ بھی دیا جائے، جبکہ سوال میں ذکر کی گئی وضاحت کے مطابق والد صاحب بھی آپ حضرات کے ساتھ ہی رہائش پذیر تھے، نیز والد صاحب نے دونوں بیٹوں کو مکان تقسیم کر کے علیحدہ علیحدہ کر کےبھی نہیں دیا،جس کی وجہ  سے شرعاً قبضہ متحقق نہیں ہوتا،  اس لیے دونوں بیٹے اس مکان کے شرعاً  مالک نہیں بنے، لہذا یہ مکان زندگی میں آپ کے والد صاحب کی ملکیت میں تھا اور اب ان کے ترکہ میں شامل ہو کر ان کے ورثاء میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہو گا۔

الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 222) دار احياء التراث العربي – بيروت:

الهبة عقد مشروع لقوله عليه الصلاة والسلام: "تهادوا تحابوا" وعلى ذلك انعقد الإجماع "وتصح بالإيجاب والقبول والقبض" أما الإيجاب والقبول فلأنه عقد، والعقد ينعقد بالإيجاب، والقبول، والقبض لا بد منه لثبوت الملك. وقال مالك: يثبت الملك فيه قبل القبض اعتبارا بالبيع، وعلى هذا الخلاف الصدقة. ولنا قوله عليه الصلاة والسلام: "لا تجوز الهبة إلا مقبوضة" والمراد نفي الملك، لأن الجواز بدونه ثابت، ولأنه عقد تبرع، وفي إثبات الملك قبل القبض إلزام المتبرع شيئا لم يتبرع به، وهو التسليم فلا يصح.

آپ کے والدین نےبوقت ِانتقال اپنی ملکیت میں جو کچھ منقولہ وغیر منقولہ مال،جائیداد،سونا، چاندی، نقدی اور ہر قسم کا چھوٹا بڑا جوساز وسامان چھوڑا ہےاوران کا  وہ قرض جو کسی کے ذمہ  واجب ہو، يہ  سب ان کا ترکہ ہے۔اس میں سے ان کے کفن دفن کے متوسط اخراجات نکالنے،ان کے ذمہ واجب الاداء قرض ادا کرنے اور کل ترکہ کے ایک تہائی کی حد تک ان کی جائز  وصیت پر عمل کرنے کے بعد جو ترکہ باقی بچے اس کو چار (4) حصوں میں برابر تقسيم كر كے بیٹے کو  دو (2) حصے اور ہر بیٹی کو  ایک(1) حصہ  دے دیا جائے، تقسیم ِ میراث کا نقشہ ملاحظہ فرمائیں:واضح رہے کہ مذکورہ صورت میں آپ کی والدہ کا انتقال والد صاحب سے پہلے ہوا ہے، مگر چونکہ دونوں کے ورثاء میں ان کا صرف بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں، اس لیے دونوں کا اکٹھا حساب کیا گیا ہے۔

نمبر شمار

ورثاء

عددی حصہ

فیصدی حصہ

1

بیٹا

2

50%

2

بیٹا

1

25%

3

بیٹی

1

25%

 

حوالہ جات
القرآن الکریم : [النساء:11]
يوصيكم اللَّه في أَولَادكم للذكَر مثل حظ الأنثيينِ.
 السراجی فی المیراث:(ص:19)، مکتبۃ البشری:
وأما لبنات الصلب فأحوال ثلاث: النصف للواحدۃ، والثلثان للإثنین فصاعدا، ومع الابن للذکر مثل حظ الأنثیین وھو یعصبھن.
صحيح البخاري (8/ 151) دار طوق النجاة:
وقال زيد: «ولد الأبناء بمنزلة الولد، إذا لم يكن دونهم ولد ذكرهم كذكرهم، وأنثاهم كأنثاهم، يرثون كما يرثون، ويحجبون كما يحجبون، ولا يرث ولد الابن مع الابن»

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

24/شوال المکرم 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب