021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زندگی میں جائیداد تقسیم کرنے کا حکم
79548ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

میرے دادا جمیل احمد کی دوسری زوجہ سے تین بیٹے 1۔ ریاض احمد،  2۔ نیاز احمد،  3۔ میرے والد اعجاز احمد اور دو بیٹیاں تھیں۔

 میرے دادا نے اپنی حیات میں اپنی ساری جائیداد اپنے حساب سے بچوں میں تقسیم کر دی جس میں سے کچھ پہلی زوجہ کے بچوں میں جب کے دو پلاٹ 7/1، ( 40 گز) ایریا لیاقت آباد، کراچی اور 6/1،( 80گز) ایریا لیاقت آباد،کراچی  1975-04-28 میں اپنی دوسری بیگم کےتینوں بیٹوں کو اسٹامپ پیپر پر دستاویز لکھ کر نام کردیا۔

ان دو پلاٹس میں مل کر ایک ہی رہائش بنی ہوئی تھی جس میں ایک کمرے میں ہمارے دادا اور باقی کمروں میں تینوں بیٹے اپنے خاندان سمیت پہلے سے رہائش پزیر تھے۔  1990-09-24 کو اس میں سے ایک پلاٹ 6/1، ان تینوں بیٹوں کے نام لیز بھی کروادیا۔  میرے دادا کا انتقال 1996-12-16 میں ہوا جس کے بعد ہم سب وہیں مقیم رہے اور  2013 میں جب اس مکان 6/1 اور 7/1 کا فروخت کرنے کا سودا کیا تو دونوں بہنوں نے پلاٹ نمبر 7/1 ، پر اپنے حصہ کا دعوی کیا، جسے اس وقت بھائیوں نے مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر نظر انداز کر دیا۔

  1. فتویٰ جو کہ ریاض احمد نے لیا تھا ، ساتھ منسلک ہے۔
  2. دادا کے مطابق انہوں نے اپنے تینوں بیٹوں کو حصہ اور اس کا قبضہ دے دیا تھا جب کہ بیٹیوں کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ان کو شادی کے وقت جو دینا تھا دے چکے ہیں۔

دادا نے کئی بار 7/1 کو بھی لیز کروانے کا کہا تھا مگر سستی کی وجہ سے بیٹوں نے نہیں کروایا۔ جب ہماری پھپھیوں نےاس پلاٹ کا دعوی کیا تو ہمارے والد صاحب اعجاز احمد دل سے چاہتے تھے کہ ان کا حصہ دیدیں مگر مجبوری کی وجہ سے نہ دے سکے اور حصہ اپنے موجودہ گھر اور حج کرنے میں استعمال کر لیا۔اب میں معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ اس حساب سے مندرجہ ذیل سوالات پر شرعی حکم کیا بنتا ہے۔

  1. شرعی حساب سے پلاٹ نمبر6/1 (80 گز) جو کہ تینوں بھائیوں کے نام پر لیز ہو چکا تھا اس میں بہنوں کا حصہ کیا بنتا ہے۔
  2. اگر بہنیں پلاٹ نمبر  6/1 پر بھی دعوی کرتیں تو کیا شرعی حکم پر کوئی فرق پڑتا؟
  3. شرعی حساب سے پلاٹ نمبر7/1 (40گز )  جو کہ صرف اسٹامپ پیپر پر نام تھا بہنوں نے فروخت ہوتے وقت اس پر دعوی بھی کیا، بہنوں کا شرعی طور پر حصے کا کیا حکم ہے؟
  4. یہ پلاٹ 2013 ، 2014 کے درمیان فروخت ہوا تھا جبکہ اگر حصہ بنتا ہے اور اب ہم ان کو دینا چاہتے ہیں تو جو اس وقت بنتا تھا وہی دینا ہوگا یا پیسہ کی ڈی ویلیو ہونے کی وجہ سے کچھ اضافی رقم بھی دینی ہوگی؟
  5. اگر میں اپنے والد صاحب کی طرف سے ان کے حصہ کی ادائیگی کرتا ہوں تو کیا میرے والد صاحب کا قرض اتر جائے گا۔

وضاحت نمبر1 : سائل کی زبانی وضاحت (بذریعہ واٹس ایپ )کے مطابق دادا نے مذکورہ دونوں پلاٹوں کو بیٹوں کے نام پر کرکے یہ کہا کہ میں اس سے بے دخل ہورہاہوں مگر ان پلاٹوں سے نکلے نہیں بلکہ انتقال تک انہی میں رہے۔

وضاحت نمبر 2 : دادا نے دونوں پلاٹ باقاعدہ تقسیم کرکے نہیں دیے تھے مگر دادا کی حیات میں ہی بھائیوں نے آپس میں دادا کی صریح اجازت سے تقسیم کرکے ہر ایک اپنے حصّے میں الگ سے رہنے لگے تھے۔(لہٰذا اس وضاحت کے مطابق یہ ھبۃ المشاع نہیں بلکہ مفرز مقسوم کا ہبہ ہے)

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

زندگی میں جائیداد کی تقسیم، ہبہ کہلاتی ہے اور ہبہ میں تمام اولاد کے درمیان خواہ مذکر ہو یا موٴنث، مساوات قائم رکھنا یعنی ہرایک کو برابر حصہ دینا مستحب ہے،اور کسی وارث کو ضرر پہنچانے کی غرض سے میراث سے محروم کرنا گناہ ہے۔ البتہ کسی خاص سبب یا ضرورت کی وجہ سے اگر کسی وارث کو زیادہ حصّہ دے تو اس کی گنجائش ہے۔ واضح رہے کے ہبہ کرنے کے بعد  ہر ایک کو مالک وقابض بنانا اور خود اس سے دستبردار ہونا بھی ضروری ہےتاکہ ہبہ تام ہوجائے۔محض زبانی کہنے سے ہبہ تام نہیں ہوتا بلکہ خود اس چیز سے دستبردار ہوکر موہوب لہ کو مالکانہ تصرّف کا اختیار دینا ضروری ہے۔

صورتِ مسؤلہ میں جب دادا  جمیل احمد نے اپنی زندگی میں یہ دونوں پلاٹ تینوں بیٹوں کو ہبہ کیے تھے اور اس سے دستبردار ہونے کا اقرار بھی کیا تھا، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد والد اپنے بیٹوں کے ساتھ تبعاً رہتے رہےاور تینوں بھائیوں نے آپس میں دادا کی صریح اجازت سے تقسیم کرکے ہر ایک اپنے حصّے میں الگ سے رہنے لگے تو اس سے ہبہ تام ہوگیا ہے اور تینوں بیٹے(ریاض احمد، نیاز احمد اور اعجاز احمد) ان کے مالک بن گئے ہیں لہذا بیٹیوں کا دونوں پلاٹوں میں6/1 اور 7/1 میں،  خواہ بیٹوں کے نام پر لیز ہوئے ہوں یا نہیں، حصے کا دعوی کرنا درست نہیں،شرعاً ان پلاٹوں میں اُن کا کوئی حصہ نہیں ۔ اگر دادا کی کل جائیداد یہی تھی جسے بیٹوں میں تقسیم کی اور بیٹیوں کو کوئی حصّہ نہیں دیا تو اس نے ناجائز کام کیا ، لیکن جس کو جو کچھ دے دیا وہ قبضے کے بعد اسی کا ہوگیا۔ البتہ بھائیوں کو چاہیے کہ اس جائیداد میں تھوڑا سا حصّہ بطور ِصلح اپنی بہنوں کو دیدیں۔

حوالہ جات
درر الحكام شرح مجلة الأحكام (2/ 350)
إيضاحات في حق القبض في الهبة . إن ثبوت ملك الموهوب له بالموهوب الذي هو حكم الهبة أي ترتب حكم على الهبة يتوقف على قبض الموهوب فلذا ليس للهبة من حكم قبل القبض بل يبقى المال الموهوب ملكا للواهب كما كان , وبتعبير آخر إنه لا يشترط القبض في صحة الهبة إلا أنه يشترط القبض في ثبوت الملك ' الهداية , وجواهر الفقه , وأبو السعود المصري . إن القبض في الهبة ليس ركن العقد بل هو خارج عن الركن إلا أنه شرط ثبوت الملكية. ليس للهبة حكم قبل القبض بصورة مطلقة أي سواء أكان الموهوب له أجنبيا أم كان ذا رحم محرم : وبما أن تمام الهبة موقوف على القبض الكامل فبمجرد الإقرار بالهبة لا يكون إقرارا بالقبض. مثلا إذا أقر شخص قائلا : قد وهبت مالي الفلاني لفلان فعلى القول الأصح لا يعد الواهب قد أقر بأن الموهوب له قبض مال الموهوب ' الأنقروي والهندية في الباب الحادي عشر , أما إذا أقر الواهب بالهبة وبالقبض معا فيثبت حصول القبض ولذلك إذا ادعى شخص على آخر قائلا : إنك كنت وهبتني هذا المال الذي تحت يدك وسلمته لي وقد أقررت بقبضي إياه وأنكر ذلك الشخص دعوى المدعي فأقام البينة على ذلك وشهد الشهود على أن الواهب أقر بالهبة والقبض تقبل شهادتهم والحكم في الرهن والصدقة هو على هذا الوجه أيضا'التتارخانية ' .
درر الحكام شرح مجلة الأحكام (2/ 362)
( المادة 846 ) - ( من وهب ماله الذي هو في يد آخر له تتم الهبة ولا حاجة إلى القبض والتسليم مرة أخرى ) . إذا تجانس القبضان قام أحدهما مقام الآخر . أما إذا تغاير أقام الأقوى مقام الأضعف لكن الأضعف لا يقوم مقام الأقوى ; لأنه يوجد في الأقوى مثل الأدنى وزيادة أما الأدنى فليس فيه الأقوى فلا يقوم مقامه ( الزيلعي . الطحطاوي ) .
فتح الباري - ابن حجر (5/ 214)
يجوز التفاضل إن كان له سبب كأن يحتاج الولد لزمانته ودينه أو نحو ذلك دون الباقين وقال أبو يوسف تجب التسوية أن قصد بالتفضيل الاضرار وذهب الجمهور إلى أن التسوية مستحبة فإن فضل بعضا صح وكره واستحبت المبادرة إلى التسوية أو الرجوع.

عنایت اللہ عثمانی

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

26/رجب الخیر/ 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عنایت اللہ عثمانی بن زرغن شاہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب