021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
حج بدل سےمتعلق چند سوالات
79857.62حج کے احکام ومسائلحج بدل کے احکام

سوال

السلام علیکم!ہمارے والد صاحب کو وفات پائے ہوئے  تین سال ہو گئے ہیں۔اپنی وفات سے تقریباً دو سال پہلے انہوں نے حج کا ارادہ کیا اور اس کے لیے پاسپورٹ بھی بنوا لیا،لیکن  انھی دنوں میں والد صاحب گردوں کے مرض میں مبتلا ہو گئے ،علاج کے باوجود طبیعت میں اتنی بہتری نہ آئی کہ حج پر جا سکیں،ڈائلیسز چلتے رہے اور اس دوران ہمارے والد صاحب کی وفات ہو گئی۔اس سلسلے میں چند ایک سوالات درج ذیل ہیں:

  1. کیا ہمارے اوپر والد صاحب کی طرف سے حج کروانا لازم ہے؟
  2. کیا ان کی طرف سے ایسا شخص حج ادا کر سکتا ہے جس نے خود حج نہ کیا ہو؟
  3. ایسا شخص جس نے اپنا حج کیا ہو،اس کے لیے اپنا نفلی حج کرنا افضل ہے یا کسی کی طرف سے حج بدل کرنا افضل ہے؟
  4. ہم چار بھائی ہیں اور  ہماری ایک بہن ہے۔کیا ہماری بہن والد صاحب کی طرف سے حج بدل ادا کر سکتی ہے یا کسی مرد کے حج بدل کرنے  کے لیے مرد کا ہونا ضروری ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں:

  1. صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کے والد صاحب نے وفات سے پہلے اپنی طرف سے حج کروانے کی وصیت کی تھی اور ان کے ترکہ کا  ایک تہائی حصہ اتنا تھا  کہ اس سے حج کے اخراجات ادا کیے جا سکتے تھے تو آپ پر ان کی طرف سے حج بدل کروانا لازم ہے،بصورتِ دیگر لازم نہیں۔تاہم مرحوم کی وصیت کے بغیر بھی ان کی طرف سے حج بدل  کروا دیا گیا  تو یہ اولاد کی طرف سے ان پر احسان ہو گا اور امید کی جا سکتی ہے کہ اللہ تعالی مرحوم کی طرف سے قبول فرما لیں گے۔
  2. بہتر یہ ہے کہ حج بدل ایسے شخص سے کروایا جائے جو اپنا فرض حج اداکرچکا ہو۔تاہم اگر ایسا شخص جس نے اپنا فرض حج ادا نہ کیا ہو،اس کے حج بدل کرنے سے بھی حج ادا ہو جائے گا۔
  3. جس شخص نے اپنا حج کیا ہوا ہو،اس  کےلیے نفلی حج کی بجائے حج بدل کرنا افضل ہے۔
  4. حج بدل کرنے والے کے لیے مرد ہونا ضروری نہیں، لہذا آپ کی ہمشیرہ والد کی طرف سے حج بدل ادا کر سکتی ہے۔
حوالہ جات
قال العلامۃ علاء الدين الكاساني رحمہ اللہ: ويحج عنه من ‌ثلث ‌ماله ،سواء قيد الوصية بالثلث بأن ‌يحج عنه بثلث ‌ماله، أو أطلق بأن أوصى أن ‌يحج عنه. أما إذا قيد فظاهروكذا إذا أطلق؛ لأن الوصية تنفذ من الثلث.
(بدائع الصنائع:2/222)
قال جمع من العلماء رحمھم اللہ: ويحج عنه من ثلث ماله ،سواء قيد الوصية بالثلث بأن أوصى أن يحج عنه بثلث ماله أو أطلق بأن أوصى بأن يحج عنه.(الفتاوی الھندیۃ:1/259)
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ:وبشرط الأمر به ،أي بالحج عنه ،فلا يجوز حج الغير بغير إذنه ،إلا إذا حج أو أحج الوارث عن مورثه.
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ: الرابع: الأمر، أي بالحج ،فلا يجوز حج غيره بغير أمره ‌إن أوصى به أي بالحج عنه ،فإنه ‌إن أوصى بأن يحج عنه فتطوع عنه أجنبي أو وارث ‌لم يجز ،وإن ‌لم ‌يوص ‌به أي بالإحجاج فتبرع عنه الوارث، وكذا من هم أهل التبرع ،فحج) أي الوارث ونحوه بنفسه أي عنه أو أحج عنه غيره جاز.
  • الدرالمختار مع رد المحتار:2/599)
قال جمع من العلماء رحمھم اللہ: والأفضل ‌للإنسان ‌إذا ‌أراد أن يحج رجلا عن نفسه أن يحج رجلا قد حج عن نفسه، ومع هذا، لو أحج رجلا لم يحج عن نفسه حجة الإسلام يجوز عندنا وسقط الحج عن الآمر.
(الفتاوی الھندیۃ:1/257)
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ: قلت: وعلى القول بوقوعه عن الآمر لا يخلو المأمور من الثواب، بل ذكر العلامة نوح عن مناسك القاضي ‌،حج الإنسان ‌عن ‌غيره ‌أفضل من حجه عن ‌نفسه بعد أن أدى فرض الحج؛ لأن نفعه متعد.(ردالمحتار:2/603)
قال جمع من العماء رحمھما اللہ:ولو ‌أحج عنه ‌امرأة أو عبدا أو أمة بإذن ‌السيد جاز ،هكذا في محيط السرخسي.(الفتاوی الھندیۃ:1/257)

محمد عمربن محمد الیاس

دارالافتاء جامعۃالرشید،کراچی

28رجب،1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عمر بن محمد الیاس

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب