021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
"تمہیں تین بار طلاق ہوگی” کہنے کا حکم
79610طلاق کے احکامطلاق کو کسی شرط پر معلق کرنے کا بیان

سوال

تحریرِ خدمت ہے کہ سائل کی بیوی اقراء مشتاق عرصہ پانچ سال سے ناراض ہو کر اپنے والدین کے ہاں قیام پذیر ہے۔ یہ واضح رہے کہ اس عرصہ میں سائل کا بیوی کے پاس ان کے والدین کے گھرآنا جانا اوربیوی کے ساتھ میل جول اور ازدواجی تعلق قائم تھا، جو 22/01/2023ء تک قائم رہا ہے۔ سائل سے 08/10/2022ء کو بیوی نے کہا کہ مجھے آپ اپنے گھر ساتھ لے جاؤ، اور بعد ازاں وہ بوجوہ ساتھ نہیں آئی۔سائل نے بیوی کوڈرانے کی غرض سے کہ وہ ساتھ چلے، یہ الفاظ کہے تھے کہ "اگر آپ میرے ساتھ نہیں آئیں، تو  پھر ہمارا آخری حل یہی ہوگا کہ تمہیں تین بار طلاق ہوگی۔ (مَیں نے یہ الفاظ اس کو طلاق دینے کے لیے یا طلاق کی نیت سے نہیں کہے تھے، بلکہ مستقبل میں ایسا ہونے کا خدشہ کا اظہار کیا تھا)۔ اور ہم دونوں کوئی نیا راستہ دیکھیں گے۔"

مزید یہ کہ اس بات کے  بعد بھی 22/01/2023ء تک ہمارا ازدواجی تعلق قائم رہا ہے، ماہِ جنوری ،2023ء کے دوران  سائل کی بیوی نے  اس حوالہ سے دریافت کیا کہ کیا آپ نے  درجِ بالا الفاظ کہے تھے؟ تو سائل نے کہا: ہاں، اور ساتھ وضاحت یہ کی کہ البتہ مَیں نے طلاق کے الفاظ خدشہ کے اظہار کے لیے کہے تھے، طلاق نہیں دی تھی۔ اس پر بیوی نے سائل سے پوچھا کہ کیا اس سے ہماری طلاق ہو گئی ہے؟ اس کے جواب میں سائل نے وضاحتاً یہ جواب دیا کہ جہاں تک میرا علم و فہم ہے، رشتہ ختم ہونے کے لیے "طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں" کے الفاظ استعمال ہوں، تو ہی طلاق واقع ہوتی ہے، جو کہ مَیں نے نہیں کہے تھے، بلکہ مَیں نے خدشہ کا اظہار کرتے ہوئے الفاظ بولے تھے۔ البتہ آپ پھر بھی اپنی تسلی کے لیے کسی مفتی صاحب سے دریافت کریں۔ شرعی اعتبار سے معاملہ کی بابت رہنمائی فرمائیں کہ کیا طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

آپ کا یہ جملہ "اگر آپ میرے ساتھ نہیں آئیں، تو  پھر ہمارا آخری حل یہی ہوگا کہ تمہیں تین بار طلاق ہوگی، اور ہم دونوں کوئی نیا راستہ دیکھیں گے۔" تعلیقِ طلاق اور دھمکی دونوں کا احتمال رکھتا ہے، لہٰذا اگر شوہر قسم اُٹھا کر یہ کہے کہ اس سے تعلیق مقصود نہیں تھی، صرف دھمکی مقصود تھی، تو اس جملے کے بعد آپ کی بیوی کے ساتھ نہ جانے کی وجہ سے کوئی طلاق نہیں ہوئی۔

حوالہ جات
الفتاوى الهندية (1/384):
"لو قال بالعربية: أطلق، لا يكون طلاقا، إلا إذا غلب استعماله للحال، فيكون طلاقا."
البحر الرائق (3/271):
"وليس منه أطلقك بصيغة المضارع، إلا إذا غلب استعماله في الحال، كما في فتح القدير."

محمد مسعود الحسن صدیقی

دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

27/رجب الخیر/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد مسعود الحسن صدیقی ولد احمد حسن صدیقی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب