021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دادا کا پانچ سالہ پوتی کو زیر کفالت لینے کا حکم
80180طلاق کے احکامبچوں کی پرورش کے مسائل

سوال

میں نے اپنے بیٹے پرویز علی سیال کی شادی کی، اس سے ایک بیٹی بھی پیدا ہوئی، کچھ عرصہ بعد ان کا آپس میں اختلاف ہوا، اس اختلاف کے بعد میرے بیٹے پرویز علی نے خود کشی کر لی، بیوی نے وہاں پر عدت نہیں گزاری، بلکہ بچی کو لے کر اپنے ماں باپ کے گھر چلی گئی، بچی کی عمر پانچ سال ہے، اب بچی کے دادا یعنی میں اس بچی کو اپنی کفالت میں لینا چاہتا ہوں، میری بہو کی اس کے والدین نے دوسری جگہ شادی بھی کر دی ہے، دو سال ہو چکے ہیں، میں اپنی پوتی کو اس لیے لینا چاہتا ہوں تاکہ میں اپنی پوتی کی تعلیم وتربیت اچھی طرح کر سکوں، کیونکہ ان کے گھر کا ماحول اچھا نہیں ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

زوجین کے درمیان علیحدگی کے بعد بچوں کی پرورش سے متعلق شریعت کا حکم یہ ہے کہ سب سے پہلے بچوں کی پرورش کا حق ماں کو حاصل ہے، البتہ اگر ماں بچہ/بچی کے کسی غیرمحرم شخص سے شادی کر لے یا کوئی مستقل ملازمت اختیار کر لے، جس کی وجہ سے دن کا اکثر حصہ باہر رہنا پڑتا ہو اور اس سے بچوں کی تربیت میں حرج لازم آتا ہو تو اس صورت میں ماں کا حق ساقط ہو جائے گا اورپھر بچوں کی نانی کو پرورش کا حق حاصل ہو گا، اگر وہ نہ ہو تو دادی کو ، پھربہن کو، پھر خالہ کو اورپھرپھوپھی کو بالترتیب حق ملے گا۔اور اگر ان میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو یا وہ پرورش کرنے کے لیے تیار نہ ہو تو اس صورت میں بچی کی تربیت کا حق باپ کو حاصل ہوتا ہے، اگر باپ  بھی موجود نہ ہو تو پھر دادا کو حقِ پرورش ملتا ہے۔

           لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ بالا ترتیب کے مطابق پرورش کرنے والی کوئی بھی خاتون موجود نہ ہو یا وہ پرورش سے انکار کردے تو اس صورت میں آپ کو حقِ پرورش حاصل ہو گا اور اگر ان میں سے کوئی بھی خاتون موجود ہو اور وہ پرورش کرنے کے لیے تیار ہو تو بچی بالغ ہونے تک اس کے زیرِ تربیت رہے گی، اس کے بعد بچی کو اختیار ہو گا کہ وہ اپنی والدہ کے پاس رہے یا آپ کے پاس آجائے، البتہ اگر والدہ کے پاس رہنے کی صورت میں تعلیم وتربیت اچھی نہ ہو رہی ہو تو اس صورت میں آپ زبردستی بچی کو اپنے زیرِ کفالت لے سکتے ہیں۔

یہ بات  بھی واضح رہے کہ مذکورہ صورت میں اگر بچی کی ملکیت میں اپنا مال موجود ہو تو اس کا خرچہ اسی  کے مال سے ادا کیا جائے گا، لہذا اگر بچی کے والد نے کوئی مال چھوڑا ہے تو شریعت کے مطابق اس کو تقسیم کر کے بچی اور اس کی ماں کو ان کا شرعی حصہ دینا آپ کے ذمہ لازم ہے۔ البتہ اگر بچی کی ملکیت میں مال موجود نہ ہو تو بچی کا خرچ ماں اور دادا کے ذمہ واجب ہو گا، جس میں سے ایک تہائی ماں کے ذمہ اور دو تہائی نفقہ دادا  یعنی آپ کے ذمہ واجب ہو گا، اگرچہ بچی آپ کے زیرِتربیت نہ ہو، بلکہ وہ  اپنی ماں، نانی یا خالہ وغیرہ کے گھر میں ان کے زیرِ تربیت ہو۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (3/ 555) دار الفكر-بيروت:
مطلب: شروط الحضانة:  قال الرملي: ويشترط في الحاضنة أن تكون حرة بالغة عاقلة أمينة قادرة، وأن تخلو من زوج أجنبي، وكذا في الحاضن الذكر سوى الشرط الأخير، هذا ما يؤخذ من كلامهم. اهـ.
الهداية في شرح بداية المبتدي (2/ 283) دار احياء التراث العربي - بيروت:
" وإذا وقعت الفرقة ين الزوجين فالأم أحق بالولد " لما روى أن امرأة قالت يا رسول  الله إن ابني هذا كان بطني له وعاء وحجري له حواء وثديي له سقاء وزعم أبوه أنه ينزعه مني فقال عليه الصلاة والسلام: " أنت أحق به مالم تتزوجي " ولأن الأم أشفق وأقدر على الحضانة فكان الدفع إليها أنظر وإليه أشار الصديق رضي الله عنه بقوله ريقها خير له من شهد وعسل عندك يا عمر قاله حين وقعت الفرقة بينه وبين امرأته والصحابة حاضرون متوافرون..... ولا تجبر الأم عليه " لأنها عست تعجز عن الحضانة " فإن لم تكن له أم فأم الأم أولى من أم الأب وإن بعدت " لأن هذه الولاية تستفاد من قبل الأمهات " فإن لم تكن أم الأم فأم الأب أولى من الأخوات " لأنها من الأمهات …… فإن لم تكن له جدة فالأخوات أولى من العمات والخالات ….. وتقدم الأخت لأب وأم " لأنها أشفق " ثم الأخت من الأم ثم الأخت من الأب " لأن الحق لهن من قبل الأم " ثم الخالات أولى من العمات " ترجيحا لقرابة الأم " وينزلن كما نزلنا الأخوات " معناه ترجيح ذات قرابتين ثم قرابة الأم " ثم العمات ينزلن كذلك وكل من تزوجت من هؤلاء يسقط حقها " لما روينا ولأن زوج الأم إذا كان أجنبيا يعطيه نزرا وينظر إليه شزرا فلا نظر۔
فتح القدير للكمال ابن الهمام (4/ 411) دار الفكر،بيروت:
 وإن كان له جد وأم موسران فنفقته عليهما على قدر ميراثهما في ظاهر المذهب. وروى الحسن عن أبي حنيفة أنها على الجد وحده لجعله كالأب، وبه قال الشافعي. وفي نفقات الشهيد: خلع امرأته وغاب عنها فطالبت عمهم فعلى العم ثلثا نفقتهم وعلى الأم الثلث إذا كانا موسرين.
 
 
الهداية في شرح بداية المبتدي (2/ 293) دار احياء التراث العربي ، بيروت:
وتجب نفقة الابنة البالغة والابن الزمن على أبويه أثلاثا على الأب الثلثان وعلى الأم الثلث " لأن الميراث لهما على هذا المقدار قال العبد الضعيف هذا الذي ذكره رواية الخصاف والحسن رحمه الله وفي ظاهر الرواية كل النفقة على الأب لقوله تعالى: {وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ} [البقرة: 233] وصار كالولد الصغير ووجه الفرق على الرواية الأولى أنه اجتمعت للأب في الصغير ولاية ومؤنة حتى وجبت عليه صدقة فطره فاختص بنفقته ولا كذلك الكبير لانعدام الولاية فيه فتشاركه الأم وفي غير الوالد يعتبر قدر الميراث حتى تكون نفقة الصغير على الأم والجد أثلاثا ونفقة الأخ المعسر على الأخوات المتفرقات الموسرات أخماسا على قدر الميراث.
المبسوط للسرخسي (3/ 104) دار المعرفة – بيروت:
(قال): وإذا كان للولد الصغير مال أدى عنه أبوه من مال الصغير في قول أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله تعالى وكذلك يضحي عنه من ماله استحسانا في قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - ذكره في كتاب الحيل.
 

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

29/شوال المکرم 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب