021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دادی جان کا اپنا پلاٹ ایک بیٹے کو ہبہ کرنے کا حکم
79636ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

میرا جو گھر ہے اس کی زمین میری دادی جان کے نام پر تھی، اور اس کے مکان کی تعمیر و ترقی پر جو بھی سرمایہ آیا، وہ ہم نے خود کیا ہے، اور 30 سال سے ہم اس مکان  پر رہ رہے ہیں۔ میری دادی جان میرے والد صاحب کے ساتھ رہتی تھیں، جو ان کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے۔ میرے والد صاحب کی کوئی سرکاری ملازمت نہیں تھی، اور کاروباری طور پر بھی وہ سیٹ نہیں تھے۔ میری دادی جان کا یہ فیصلہ تھا کہ یہ گھر مَیں اپنے بیٹے کو ہبہ کرتی ہوں کہ میرے فوت ہو جانے کے  بعد یہ میری زمین میرے چھوٹے بیٹے کی ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک تو مالی حالات میرے والد صاحب کے اچھے نہیں تھے، دوسرا وہ اپنی والدہ کے خدمت گار بھی تھے۔ اورا س ہبہ پر دادی کے دیگر ورثاء کو کوئی اعتراض بھی نہیں تھا، دادی جان کی نیت کسی کو نقصان پہنچانے کی نہیں تھی۔ دادی جان نے ایک اسٹام پیپر پر بھی لکھ کے دے دیا تھا۔ اس کے علاوہ تمام خاندان والے بھی اس بات کے گواہ ہیں۔

جس وقت یہ سب کچھ ہوا تھا، اس وقت  رجسٹری ہمارے پاس موجود نہیں تھی، کیونکہ ہم نے بینک سے لون لیا تھا، اس لیے ہماری رجسٹری بینک میں چلی گئی، اس دوران دادی جان کی وفات ہوگئی۔ اب پندرہ سال  کے بعد ہم نے جب بینک کا لون ادا کیا تو رجسٹری ہمارے پاس آگئی۔ رجسٹری اس ٹائم دادی جان کے نام پر تھی، لیکن اب جبکہ وہ ہمارے پاس آگئی ہے تو ہم نے بذریعۂ انتقال اپنے نام پر کروا دی ہے۔ اس ٹائم میرے والد صاحب اور ان کے بھائیوں اور بہنوں میں سے کوئی بھی زندہ نہیں تھا۔

جیسا کہ آپ کو بتایا کہ صرف  زمین دادی جان کے نام پر تھی، اور شروع سے ہی اس کی تعمیر و ترقی پر ہم نے پیسے خرچ کیے ہیں، اور قبضہ بھی ہمارا ہے۔ مجھے یہ بتائیں کے یہ ہبہ یا گفٹ شریعت کے مطابق پورا ہوچکا ہے یا نہیں؟

وضاحت: سائل نے بذریعہ فون یہ بتایا ہے کہ دادی جان اپنے والدین کی اکلوتی وارثہ تھیں، اور ان کو اپنے والدین سے جو وراثت سے ملی تھی، اس کو فروخت کرکے انہوں نے عمرہ ادا کیا تھا، اور باقی پیسوں سے مذکورہ بالا پلاٹ خرید لیا تھا، اس پلاٹ کی خریداری میں ان کا کوئی ساجھی نہیں تھا، وہ اس کی تنہا مالکہ تھیں، نیز انہوں نے یہ پلاٹ اپنے چھوٹے بیٹے کو زندگی میں مکمل اختیار سمیت گفٹ کردیا تھا، صرف اُس وقت کاغذی کاروائی نہیں ہوسکی تھی، کیونکہ مکان کے کاغذات بینک میں گروی رکھے ہوئے تھے، اور جب بینک سے کاغذات واپس ملے تو دادی کا انتقال ہوچکا تھا۔ نیز گفٹ کا یہ معاملہ دادی کے دیگر ورثاء کو معلوم تھا، اور وہ سب اس پر راضی بھی تھے۔ اور اس پلاٹ کی تعمیرات پر جو کچھ خرچہ ہوا ہے، وہ صرف موہوب لہُ بیٹے نے کیا ہے۔

سوال میں مذکور اس جملے "یہ گھر مَیں اپنے بیٹے کو ہبہ کرتی ہوں کہ میرے فوت ہو جانے کے  بعد یہ میری زمین میرے چھوٹے بیٹے کی ہے" سے سائل کا مقصد یہ ہے کہ دادی نے گفٹ اس طرح کیاتھا کہ ان کی زندگی میں بھی بیٹا اس کا مالک ہے، اور ان کی وفات کے بعد بھی وہی بیٹا اس کا مالک رہے گا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کردہ صورت میں دادی کی طرف سے آپ کے والد صاحب کو مذکورہ پلاٹ ہبہ (Gift) کرنے کا معاملہ مکمل ہوچکا ہے، لہٰذا اب اُس پلاٹ کے شرعاً مالک آپ کے والد صاحب ہیں، دادی کے دوسرے ورثاء کا اُس میں حق نہیں ہے۔

حوالہ جات
رد المحتار (24/11):
"(قوله: هو الإيجاب) وفي خزانة الفتاوى: إذا دفع لابنه مالا، فتصرف فيه الابن، يكون للأب، إلا إذا دلت دلالة التمليك، بيري. قلت: فقد أفاد أن التلفظ بالإيجاب والقبول لا يشترط، بل تكفي القرائن الدالة على التمليك، كمن دفع لفقير شيئا وقبضه، ولم يتلفظ واحد منهما بشيء."
الدر المختار (5/690):
"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل."
الدر المختار (5/688):
"(وحكمها: ثبوت الملك للموهوب له غير لازم)."
الدر المختار (5/696):
"وفي الخانية: لابأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة؛ لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار ... ولو وهب في صحته كل المال للولد، جاز."

محمد مسعود الحسن صدیقی

دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

29/رجب الخیر/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد مسعود الحسن صدیقی ولد احمد حسن صدیقی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب