021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نامرد شوہر کی بیوی کی عدت کا حکم
79664طلاق کے احکامعدت کا بیان

سوال

ہم نے اپنی بیٹی کی شادی تقریباًنو سال پہلے ایک شخص سے کی ،لیکن نو سال گزرنے کے بعد بھی کوئی اولاد نہیں ہوئی۔اس دوران ہم نے بیٹی سے  کئی بار وجہ معلوم کرنے کی کوشش کی، لیکن اس نے شرم کی وجہ سے نہیں بتائی۔کچھ دن پہلے بیٹی نے ہمیں بتایا کہ اس کا شوہر نامرد ہے اور ان نو سالوں میں اس نے ایک بار بھی  صحبت  نہیں کی۔کافی علاج بھی کیا پر کچھ فائدہ نہیں ہوا۔چنانچہ ہم نے لڑکے کے والدین کو مجبور کر کےلڑکے  سے  تین مرتبہ طلاق  کہلوا بھی لی ہے اور ثبوت کے طور پرلکھوا بھی لی ہے۔اب لڑکے کا کہنا ہے کہ مجھ سے زبردستی طلاق کہلوائی گئی ہے ،میرا ارادہ نہیں تھا طلاق کا ،لہذا طلاق ہوئی ہی نہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا  خاندان کے دباؤ  کی وجہ سے دی جانے والی طلاق معتبر ہو گی یا نہیں  ؟اور اگر طلاق ہو گئی ہے تو اس صورت میں عدت  گزارنی ضروری ہو گی یا نہیں ،جبکہ مرد ہمبستری پر قادر بھی نہ ہو؟اور اگر ہو گی تو کتنی ہو گی؟
 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

"طلاق "کے الفاظ سے طلاق کے واقع ہونے میں نیت کا اعتبار نہیں ہوتا،جس نیت سے بھی "طلاق" کے الفاظ بولے جائیں یا مجبور ہو کر کہے جائیں،تب بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔لہذا صورت مسئولہ میں آپ کی بیٹی  پر تین طلاقیں واقع ہو گئی ہیں۔
اگر شوہر نامرد ہو، یعنی ہمبستری پر قادر نہ ہو تو بھی شرعاً عورت پر عدت لازم ہوتی ہے ،  لہذا صورتِ مسئولہ میں  اگر عورت کو ماہواری آتی ہو تو تین ماہواری عدت ہو گی اور اگر کسی وجہ سے ماہواری نہ آتی ہو تو تین ماہ عدت گزارنا ضروری ہے۔ 
 

حوالہ جات
قال العلامۃ علي بن أبي بكرالمرغيناني رحمہ اللہ:الطلاق على ضربين :صريح وكناية، فالصريح قوله: أنت طالق ومطلقة وطلقتك، فهذا يقع به الطلاق الرجعي ؛لأن هذه الألفاظ تستعمل في الطلاق ولا تستعمل في غيره فكان صريحا.......ولا يفتقر إلى النية " لأنه صريح فيه لغلبة الاستعمال.
(الهداية:  1/225)
قال العلامۃ  عثمان بن علي الزيلعي رحمہ اللہ: قوله:( وعليها العدة لوجود الخلوة الصحيحة) أي ؛لأن خلوة العنين صحيحة إذ لا وقوف على حقيقة العنة؛ لجواز أن يمتنع من الوطء اختيارا تعنتا، فيدور الحكم على سلامة الآلة.(تبیین الحقائق:3/23)
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ: ولو وجدته، عنيناوهو من لا يصل إلى النساء لمرض أو كبر، أو سحر...فإن وطئ مرة فبها وإلا بانت بالتفريق من القاضي إن أبى طلاقها بطلبها.
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ:قوله:( و إلا بانت بالتفريق) ؛لأنها فرقة قبل الدخول حقيقة، فكانت بائنة ،و لها كمال المهر و عليها العدة لوجود الخلوة الصحيحة.(الدرالمختار مع رد المحتار:3/496)

محمد عمر بن محمدالیاس
دارالافتاء جامعۃالرشید،کراچی
28رجب،1444ھ
 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عمر بن محمد الیاس

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب