021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شدید ذہنی دباؤ میں طلاق نامہ پر دستخط کاحکم
79615طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

میں نے اپنی پہلی بیوی اور سالے کے شدید دباؤ (بیوی کی خودکشی کی کوشش)، پریشر اور گھبراہٹ میں آ کر طلاق نامہ ثلاثہ جو انہوں نے میری دوسری بیوی کے نام تیار کرایا تھا سائن کر دیا،میں نے پہلی بیوی کو تقریبا دو سال تک دوسرے نکاح کے بارے میں نہیں بتایا تھا اس کے ڈپریشن کے مرض کی وجہ سے ۔ جب بتایا تو اس نے  دوسری بیوی کو طلاق دینے کا مطالبہ شروع کر دیا۔

میں نے واضح طور پر بتایا کہ میں نہیں دوں گا۔ اس بات پر اس کا ڈپریشن کا مرض شدید ہوتا گیا۔ ہائی بلڈ پریشر اور نیند آنے کا مسئلہ بھی شدید ہو گیا۔ کئی بار ہسپتال جاتے۔ پھر سائکٹرست نے ہائی پوٹینسی کی ڈپریشن اور نیند کی دوائیاں شروع کرا دیں،اس بات کے تقریبا ایک ہفتے کے بعد جب وہ اپنے والدین کے گھر تھی بیمار ہونے کی وجہ سے ، میری بیوی نے دوسری بیوی کو طلاق دینے کی با ت دوبارہ شروع کی۔ ان کا بھائی بھی وہاں تھا۔ جب میں نے اتفاق نہ کیا تو وہ انتہائی  جذباتی ہو گئی  ۔ بات بڑھ گئی اور اچانک اس نے کہا کہ اگر آپ ابھی اسے طلاق نہیں دیتے تو میں یہ ساری گولیاں کھا کر مر رہی ہوں اور ایک ڈبی کھول کر ساری گولیاں کھانے لگی۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر روکا مگر بہت زیادہ پریشان اور بے حد گھبرا گیا۔ شاید اس کا شدید ڈپریشن، ہائی بلڈ پریشر اور روز نیند کی دوائی کھانا بھی ذہن میں تھا، اس لئے مجھے لگا کہ وہ واقعی خودکشی کر لے گی۔ میں نے انہیں اپنا دوسری بیوی کے ساتھ کا نکاح نامہ دے دیا۔ وہ دونوں اسی وقت مجھے کچہری لے گئے۔ راستے میں میرے سالے نے اپنے جاننے والے وکیل کو بھی لے لیا جس سے میرے خیال میں میرے سالے کی بات طے تھی مگر اس وقت میں نہیں سمجھ سکا ۔ میں نے ان تینوں کے سامنے  کچہری  میں طلاق نامہ ثلاثہ جو یہ تیار کر کے لاے اس پر دستخط کر دئے۔میرا سالہ خود اور ان کا وکیل گواہ بن گئے۔وکیل نے نکاح نامہ پر موجود یونین کونسل اور نکاح خواں کے ایڈریس پر رجسٹری کرا دی۔

میں نے خود یہ اطلاع دوسری بیوی کو نہ دی۔ صرف یہ بتایا کہ بہت غلط ہو گیا ہے۔ دس دن کے بعد انہیں ڈاک سے یہ کاغذ مل گئے۔ میں نے کبھی زبان سے نہیں  کہا۔ میں طلاق بالکل نہیں دینا  چاہتا تھا مگر اس وقت کچھ سمجھ نہ سکا اور شدید دباؤ اور سخت پریشانی میں کر سائن/ دستخط کر دیے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح  ہوکہ  مفتی  کو غیب کا  علم نہیں ہوتا   بلکہ  سوال کی تحریر  کے  مطابق  ہی جواب لکھا جاتا   ہے  ، مفتی  کے لکھنے سے   حلال  حرام  نہیں  ہوتا  اور  حرام حلال  نہیں  ہوتا ،اس لئے سوال  کی صحت کی  تما م ترذمے داری سائل پر   عائد ہوتی  ہے ۔

        اس وضاحت  کے بعد اگر واقعة   آپ  کی پہلی  بیوی نے دوسری  بیوی  کو  طلاق دینے  پر اس قدر مجبور کیا  کہ طلاق نامہ  پر دستخط نہ کرنے کی صورت میں خودمہلک  دوائی کھا کر  خود کشی کرنے کی دھمکی دی تھی  اور آپ کو یقین بھی تھا  کہ  حقیقت  میں بیوی   ایسا کرسکتی ہے تو  یہ صورت شرعا اکراہ کی ہے ، اس کا حکم یہ ہے   کہ اگر آپ نے  زبان  سے  طلاق کے  الفاظ  ادا کئے کے بغیر  طلاق نامے پر دستخط   کردئے  تھےتو ایسی مجبوری کی صورت میں  طلاق نامے پرصرف دستخط  کردینے سے کوئی  طلاق  واقع نہیں ہوئی،لہذادونوں کا نکاح  برقرار ہے آیندہ دونوں کے لئے  میاں  بیوی کی حیثیت  سے زندگی گذارنا  جائز ہے ۔اور اگر دستخط کے ساتھ زبان سے بھی  طلاق نامے  کے الفاظ ادا کئے ہیں تو اس صورت میں  اس طلاق نامے میں لکھی   ہوئی تینوں  طلاقیں  واقع  ہوچکی  ہیں اور  دوسری بیوی   آپ ﴿شوہر﴾ پرتین طلاقوں کے ساتھ حرام ہوچکی ہے ، ایسی  صورت میں حلالہ  شرعیہ کے بغیردوبارہ نکاح بھی   نہیں ہوسکتا ہے۔

حوالہ جات
 رد المحتار (10/ 497)
وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو ثم المرسومة لا تخلو إما أن أرسل الطلاق بأن كتب : أما بعد فأنت طالق ، فكما كتب هذا يقع الطلاق وتلزمها العدة من وقت الكتابة .
وإن علق طلاقها بمجيء الكتاب بأن كتب : إذا جاءك كتابي فأنت طالق فجاءها الكتاب فقرأته أو لم تقرأ يقع الطلاق كذا في الخلاصة ۔
الفتاوى الهندية (38/ 244)
( وأما ) ( أنواعه ) فالإكراه في أصله على نوعين إما إن كان ملجئا أو غير ملجئ فالإكراه الملجئ هو الإكراه بوعيد تلف النفس أو بوعيد تلف عضو من الأعضاء والإكراه الذي هو غير ملجئ هو الإكراه بالحبس والتقييد . ( وأما ) ( حكمه ) وهو الرخصة أو الإباحة أو غيرهما فيثبت عند وجود شرطه ، والأصل أن تصرفات المكره كلها قولا منعقدة عندنا إلا أن ما يحتمل الفسخ منه كالبيع والإجارة يفسخ ، وما لا يحتمل الفسخ منه كالطلاق والعتاق والنكاح والتدبير والاستيلاد والنذر فهو لازم ، كذا في الكافي 
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 236)
فلو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لا تطلق لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا، كذا في الخانية،
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (3/ 264)
قوله: (ولو مكرها) أي ولو كان الزوج مكرها على إنشاء الطلاق لفظا الی قولہ ۰۰۰وقيدنا بكونه على النطق لأنه لو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لا تطلق لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا كذا في الخانية، وفي البزازية أكره على طلاقها فكتب فلانة بنت فلان طالق لم يقع اهـ.   

احسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ    

دارالافتاء جامعة الرشید    کراچی

۲۹ رجب ١۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب