021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
لڑکے کا مجبور ہو کر اپنے اختیار سے لڑکی کو تین طلاقیں لکھ کر دینے کا حکم
80236طلاق کے احکامتین طلاق اور اس کے احکام

سوال

میں نے ماہا مسعود سے کورٹ میرج کیا، چند ماہ بعد لڑکی کے ماموں نے کہا کہ میری بھانجی کو علیحدہ گھر دو ورنہ طلاق دے دو، میں مجبورا لڑکی کے ماموں امجد کی شرط کو قبول کر رہا ہوں اور اپنی بیوی کی فیملی کی خوشی کی خاطر اس کو چھوڑ رہا ہوں اور پہلی طلاق دیتا ہوں۔

اس کے بعد لڑکی کے ماموں زاد بھائیوں نے میرے گھر پر حملہ کیا، میری شرٹ بھی پھاڑ دی، لڑکی کا والد بھی ساتھ تھا،والد نے کہا کہ لڑکی کو چھوڑ دو، اس کا حق مہر ادا کرو، میں بہت سوچتا رہا، اس واقعہ کے دو دن بعد  تک بھی لڑکی اور اس کے گھر والوں کی طرف سے طلاق کے مطالبہ کے میسج آتے رہے،  اب میں ماہا مسعود سے بات کر چکا ہوں، ماہا کا کہنا ہے کہ رشتہ چھوڑ دو، طلاق دے دو۔ اب میں طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں۔

وضاحت:لڑکے نے فون پر بتایا کہ میں نے زبان سے صرف ایک طلاق دی ہے، باقی لکھ کر تین طلاقیں کر دی ہیں، وہ بھی ان کے بار بار مطالبہ کرنے پر دی ہیں، میری نیت طلاق دینے کی نہیں تھی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

فقہائے کرام رحمہم اللہ نے تصریح کی ہے کہ جس طرح زبانی طلاق واقع اور نافذ ہوجاتی ہے، اسی طرح اپنے ہوش وحواس کی حالت میں لکھ کر دی گئی طلاق بھی واقع ہو جاتی ہے، نیز صریح الفاظ سے دی گئی طلاق میں نیت کا ہونا بھی ضروری نہیں، بلکہ ان الفاظ کے ذریعہ بغیرنیت کے بھی طلاق واقع ہو جااتی کی ہے۔

 لہذا صورتِ مسئولہ میں آپ کے ایک طلاق پہلے کاغذ پر اور مزید دو طلاقیں دوسرے کاغذ پر لکھ کر دینے کی وجہ سے آپ کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہو کر حرمتِ مغلظہ ثابت ہو چکی ہےاورفریقین کے درمیان نکاح ختم ہو چکا ہے،  جس کی وجہ سے فی الحال رجوع اور فریقین کے درمیان  دوبارہ نکاح بھی شرعاً نہیں ہو سکتا، البتہ اگر عورت عدت گزارنے کے بعد کسی اور شخص سے نکاح کرے اور وہ اس کے ساتھ ہمبستری بھی کرے،  پھر وہ شخص اپنی مرضی سے طلاق دیدے یا وہ فوت ہو جائے تو اس صورت میں اس شخص کی عدت گزارنے کے بعد فریقین باہمی رضامندی سے نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں، ورنہ نہیں۔   

حوالہ جات
الفتاوى الهندية (1/ 378) دار الفكر،بيروت:
(الفصل السادس في الطلاق بالكتابة) الكتابة على نوعين مرسومة وغير مرسومة ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرا ومعنونا مثل ما يكتب إلى الغائب وغير موسومة أن لا يكون مصدرا ومعنونا وهو على وجهين مستبينة وغير مستبينة فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه وقراءته وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشيء لا يمكن فهمه وقراءته ففي غير المستبينة لا يقع الطلاق وإن نوى وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق يقع وإلا فلا وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو ثم المرسومة لا تخلو أما إن أرسل الطلاق بأن كتب أما بعد فأنت طالق فكلما كتب هذا يقع الطلاق وتلزمها العدة من وقت الكتابة.
 

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

7/ ذوالقعدة 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب