021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیوہ، تین بھائیوں اور تین بہنوں میں رقم کی تقسیم
79716میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

مشتاق احمد کا انتقال ہوا، اس کے ورثا میں ایک بیوہ، تین بھائی، تین بہنیں اور سوتیلی والدہ شامل ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کو ایک کروڑ پینسٹھ لاکھ ستائیس ہزار آٹھ سو (16,527,800) میں سے کتنا کتنا حصہ ملے گاَ؟

وضاحت: سائل نے فون پر بتایا کہ مرحوم مشتاق احمد کے والد، سگی والدہ، دادا، دادی اور نانی کا انتقال اس کی زندگی میں ہوگیا تھا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ مرحوم مشتاق احمد کی میراث میں اس کی سوتیلی والدہ کو کوئی حصہ نہیں ملے گا۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مشتاق احمد کی میراث اس کی بیوہ، تین بھائیوں اور تین بہنوں میں تقسیم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کی میراث کو بارہ (12) حصوں میں تقسیم کر کے بیوہ کو تین (3) حصے، تین بھائیوں میں سے ہر ایک کو دو، دو (2، 2) حصے اور تین بہنوں میں سے ہر ایک کو ایک، ایک (1، 1) حصہ دیدیں۔

اس فارمولا کے مطابق ایک کروڑ پینسٹھ لاکھ ستائیس ہزار آٹھ سو (16,527,800) میں سے:-

(1)۔۔۔  بیوہ کا حصہ اکتالیس لاکھ اکتیس ہزار نو سو پچاس (4,131,950) روپے بنتا ہے۔

(2)۔۔۔ تین بھائیوں سے ہر ایک بھائی کا حصہ ستائیس لاکھ چون ہزار چھ سو تینتیس اعشاریہ تین تین (2,754,633.33) روپے بنتا ہے۔

(3)۔۔۔ تین بہنوں میں سے ہر ایک بہن کا حصہ تیرہ لاکھ ستتر ہزار تین سو سولہ اعشاریہ چھ چھ (1,377,316.66) روپے بنتا ہے۔

حوالہ جات
السراجي فی المیراث (25):
وأما للأخوات لأب وأم فأحوال خمس….. ومع الأخ لأب وأم للذکر مثل حظ الأنثیین، یصرن به عصبة لاستوائهم في القرابة إلی المیت.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

     8/شعبان المعظم/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب