021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زمین کی ملکیت کب آتی ہے؟
79955بنجر زمین کو آباد کرنے کے مسائلشاملات زمینوں کے احکام

سوال

خلاصہ سوال:نوروز خان کو ان کے سالے حاجی خلیل الرحمن نے ایک زمین دی  تاکہ  وہ اس پر گھر وغیرہ بنا   سکیں۔ کام کے دوران تیسرےشخص منظور احمد نے مختلف اوقات میں تعمیراتی کام  رکوانے کی کوشش کی اور یہ کہا کہ زمین ان کی ہے۔ لیکن اپنے اس زبانی دعوی کو ثابت کرنے کےلیے نہ تو   نوروز خان یا حاجی خلیل سے بات کی اور نہ ہی کسی عدالتی فورم پر اپنا کیس درج کروایا ہے۔ اس کے برعکس  اہل علاقہ کی شہادتیں اور ریونیو ریکارڈ حاجی خلیل کی ملکیت کی تائید کرتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ  ازروئے شریعت زمین کی ملکیت کے کیا اصول ہیں؟

نوروز خان کے لیے اس زمین کے حوالے سے کیا حکم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شرعا زمین کی ملکیت تین اسباب سے ثابت ہوسکتی ہے۔ زمین کی ملکیت ایک شخص دوسرے کی طرف منتقل کردے ۔جیسے خریدو فروخت اور ہبہ یا زمین بطور خلافت کے کسی کو ملے جیسے میراث اور وصیت یا پھر کوئی شخص غیر  آباد  زمین  جو کسی کی ملکیت نہ ہو،اس کو متعلقہ حکومتی ادارے سے قانون کے مطابق اجازت لے کر  آباد کرلے ۔اگر کسی شخص  کے پاس ان صورتوں میں سے  کسی سبب کے نتیجے میں کوئی زمین آئے تو وہ اس کا مالک ہوگا۔ لہذا سوال میں ذکر کردہ تفصیلات کے مطابق اگراہل علاقہ حاجی خلیل کی ملکیت کی درج بالا اسباب میں سے کسی سبب کی بناء پر شہادت دیتے ہیں اور حکومتی کھاتے بھی اس کی تائید کرتے ہیں تویہ زمین حاجی خلیل کی ملکیت ہے ۔لہذا اس کا زمین نوروز خان کو دینا اور نوروز خان کا اس پر تعمیرات کرنا جائز ہے۔

سوال کے مطابق تیسرا شخص منظور احمد مدعی بن رہا ہے ، اسے چاہیے کہ عدالت میں گواہوں کے ذریعہ اپنا دعوی ثابت کرے اور گواہ نہ ہونے کی صورت میں مدعی علیہ سے  قاضی کے سامنے قسم کا  مطالبہ کر سکتا ہے۔مذکورہ طریق سے اپنی ملکیت  ثابت کیے بغیر  اس کو مذکورہ زمین میں دخل اندازی اور تعمیرات وغیرہ روکنے  کا حق نہیں ہے۔

یہ احکام تو ظاہری فیصلے کے ہیں ،حقیقت اگر فریقین کو معلوم ہے تو اس سے ہٹنا اور ناجائز دعوی اور قبضہ کرنا ظلم ہے۔جو دنیا وآخرت میں بربادی کا سبب ہے۔

حوالہ جات
البحر الرائق شرح كنز الدقائق (5/ 278)
فالأسباب ثلاثة مثبت للملك وهو الاستيلاء وناقل للملك وهو البيع ونحوه وخلافة وهو الميراث والوصية
الدر المختار  (6/ 463)
اعلم أن أسباب الملك ثلاثة: ناقل كبيع وهبة وخلافة كإرث وأصالة، وهو الاستيلاء حقيقة بوضع اليد أو حكما بالتهيئة كنصب الصيد
حاشية ابن عابدين (رد المحتار)
قوله ناقل) أي من مالك إلى مالك، وقوله وخلافة: أي ذو خلافة، وكذا يقال فيما بعده ط (قوله وهو الاستيلاء حقيقة) شمل إحياء الموات فلا حاجة إلى عده قسما رابعا كما فعل الحموي (قوله كنصب شبكة لصيد لا لجفاف) تبع فيه صاحب الأشباه،
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 547)
(ويسأل القاضي المدعى عليه) عن الدعوى فيقول إنه ادعى عليك كذا فماذا تقول (بعد صحتها وإلا) تصدر صحيحة (لا) يسأل لعدم وجوب جوابه (فإن أقر) فيها (أو أنكرفبرهن المدعي قضى عليه) بلا طلب المدعي (وإلا) يبرهن (حلفه) الحاكم (بعد طلبه) إذ لا بد من طلبه اليمين في جميع الدعاوى إلا عند الثاني في أربع على ما في البزازية

عبدالقیوم   

دارالافتاء جامعۃ الرشید

15/شعبان /1444            

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالقیوم بن عبداللطیف اشرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب