021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بلڈنگ کے یونٹس بیچنے کے بعد کرایہ پر لینا دینا اور کرایہ کے استحقاق کی تفصیل
79943خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

میری دس منزلہ بلڈنگ ہے جو کہ گرے اسٹریکچر کی صورت میں تیار ہے، اس میں مختلف یونٹس، ون بیڈ، ٹو بیڈ اور سٹوڈیو وغیرہ موجود ہیں۔ جن فیلٹس کی فنشنگ ہوچکی ہیں، ان میں لوگ رہائش پذیر ہیں۔ اس وقت بلڈنگ میں ٹائل، سیلنگ، رنگ روغن اور لکڑی کا کام جاری ہے۔ یہ بلڈنگ نسٹ یونیورسٹی کے پاس ہے اور یہاں رینٹل ویلیو بہت اچھی ہے۔

(1)۔۔۔ اب میں بقایا یونٹس نقد و آسان اقساط کی صورت میں فروخت کرنا چاہتا ہوں اور خریدار کو بعد از فروخت رینٹ کی آفر کرتا ہوں کہ اگر خریدار چاہے تو وہ اپنے فلیٹ کا ماہانہ رینٹ جو فریقین کے درمیان طے ہوگا، مجھ سے وصول کرسکتا ہے، البتہ اگر وہ مجھے رینٹ پر نہیں دینا چاہتا، بلکہ خود رہائش اختیار کرنا چاہتا ہے یا خود رینٹ پر لگانا چاہتا ہے تو میری طرف سے کوئی پابندی نہیں ہے۔

(2)۔۔۔ بالخصوص اقساط کی صورت میں راہنمائی چاہیے؛ کیونکہ اقساط کی صورت میں ڈاؤن پیمنٹ ٪40 ہے۔ اگر خریدار ٪40 رقم دیتا ہے تو اس کا فلیٹ دو ماہ میں قابلِ رہائش ہوگا اور فوراً رینٹ پر لگ جائے گا، خریدار بقایا ٪60 رقم 20 ماہ میں ادا کرے گا، جس کی صورت یہ ہے کہ وہ ہر چار ماہ بعد ایک قسط ادا کرے گا، اور ہر قسط کی ادائیگی پر اس کا شئیر/ حصہ مذکورہ فلیٹ میں بڑھتا جائے گا۔ آیا اس صورت میں وہ خریدار فی الفور ۂ40 رینٹ کا حق دار ہوگا؛ کیونکہ فی الحال مذکورہ فلیٹ میں اس کی ادا شدہ رقم ٪40 ہے؟ یا وہ کل رینٹ کا حق دار ہوگا؛ کیونکہ مذکورہ فلیٹ تو میں اسے طے شدہ قیمت پر فروخت کرچکا ہوں؟ اور خریدار کی طرف سے قسط کی ادائیگی کی صورت میں جب اس کا شئیر بڑھ جائے گا تو آیا اس صورت میں اس کے رینٹ میں اضافہ ہوگا یا اس کی جواز کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(1)۔۔۔ مذکورہ بلڈنگ میں جن یونٹس کا ڈھانچہ (Structure) بنا ہوا ہے اور وہ قابلِ انتفاع ہیں یعنی انہیں رہائش یا گودام وغیرہ کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، اگر کوئی شخص ان کو خریدتا ہے اور خریدنے

کے بعد اپنی آزادانہ مرضی سے بیچنے والے یعنی آپ کو یا کسی اور کو کرایہ پر دیتا ہے تو یہ جائز ہے۔

یہ حکم اس صورت میں ہے جب تعمیر شدہ بلڈنگ کے یونٹس فروخت کیے جائیں۔ اگر بلڈنگ کی تعمیر ابھی نہ ہوئی ہو، اور اس کے یونٹس بیچے جائیں تو ایسی صورت میں بلڈنگ بننے اور خریدار کا اپنے یونٹ پر قبضہ کرنے سے پہلے اس کو کرایہ پر لینا دینا جائز نہیں ہوگا۔   

(2)۔۔۔ جہاں تک اقساط پر یونٹ بیچنے کی صورت میں کرایہ کے استحقاق کا تعلق ہے تو جب آپ خرید وفروخت کا معاملہ کرتے وقت خریدار کو پورا یونٹ طے شدہ قیمت میں ایک ساتھ بیچتے ہیں، قیمت ٪40 نقد، جبکہ بقیہ ٪60 اقساط کی صورت میں وصول کرتے ہیں تو اس صورت میں خرید وفروخت کا معاملہ ہوتے ہی وہ پورا یونٹ خریدار کی ملکیت میں چلا جاتا ہے، نہ کہ ٪40، لہٰذا بعد میں قسطیں ادا کرنے کی وجہ سے اس کا حصہ نہیں بڑھتا، وہ صرف آپ کے دین یعنی ادھار کی ادائیگی ہوتی ہے۔ لہٰذا جب مکمل یونٹ خریدار کا ہوا تو کرایہ بھی سارا اسی کو ملے گا۔ آپ بقایا اقساط کی وجہ سے کسی اور کو کرایہ پر دینے کی صورت میں کرایہ میں حصے کا اور خود کرایہ پر لینے کی صورت میں کرایہ مارکیٹ ریٹ سے کم رکھنے کا مطالبہ نہیں کرسکتے، ورنہ یہ دین (ادھار) پر مشروط نفع ہوجائے گا جو سود میں داخل ہے۔

البتہ اگر کوئی شروع میں سارا یونٹ ایک ساتھ نہ بیچے، بلکہ خریدار جتنی قیمت نقد دے رہا ہو، صرف اتنا حصہ اس کو بیچے، اور باقی حصہ اپنی ملکیت میں رکھے، پھر بعد میں خریدار قسط کی شکل میں جتنی رقم دے، اتنا حصہ اس کو مزید بیچے تو اس صورت میں وہ یونٹ اصل مالک اور خریدار کے درمیان مشترک ہوگا، اور کرایہ پر دینے کی صورت میں ہر ایک اپنی ملکیت کے تناسب سے کرایہ کا حق دار ہوگا۔ اس صورت میں خریدار یونٹ کے جتنے حصے خریدتا جائے گا، اتنا اس کے کرایہ کے استحقاق میں اضافہ ہوگا۔

حوالہ جات
۔

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

    15/شعبان المعظم/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب