021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسجد کے پلاٹ پر عارضی مسجد کا حکم
79954وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ان مسائل کے بارے میں :

"ابلاغ عامہ سوسائٹی گلستان جو ہر 8 کراچی " میں قانون کے اعتبار سے مسجد کے لئے پلاٹ مختص ہے۔ چند برس پہلے چند ایک گھر تھے۔ چنانچہ ہم نے مسجد کے پلاٹ میں ایک عارضی مسجد بنادی۔ یہ عارضی مسجد ہم نے پلاٹ کے پچھلے حصے میں بنائی ہے۔ ارادہ یہ تھا کہ جب آبادی ہو گی تو مستقل مسجد تعمیر کر دیں اور اس حصے کو منہدم کر لیں گے۔ لیکن وقت گزرتا گیا ذہن میں تھا کہ ایک ڈیڑھ سال میں مستقل مسجد تعمیر کر دی جائے گی مگر کرونا وائرس اور دیگر مجبوریوں کی وجہ سے اس کو چھ سال سے زائد ہو گئے۔ اب مستقل مسجد کے نقشہ و غیرہ کے حوالے سے کاغذی کاروائی ہوئی تو معلوم ہوا کہ پلاٹ کی جو دیواریں بنائی گئی تھیں وہ ٹھیک نہیں تھیں۔ اب جب دوبارہ چیکنگ ہوئی تو معلوم ہوا کہ آدھے سے زیادہ (عارضی) مسجد دوسرے پلاٹ پر تعمیر ہوئی ہے۔

اب دو مسئلے ہیں۔

پہلا مسئلہ:عارضی مسجد کا آدھے سے زیادہ حصہ دوسرے پلاٹ پر تعمیر ہے جیسا کہ اوپر تصویر میں ہے ۔وہ پلاٹ کا حصہ نہ خرید نا ممکن ہے اور نہ ہی زبر دستی اس پر تعمیر ممکن ہے۔

دوسرا مسئلہ : ہم جو نیا نقشہ بنار ہے ہیں ، اس میں وضوخا نہ اور بیت الخلاء باقی حصے پر آرہے ہیں، جو کہ موجودہ پلاٹ کا حصہ ہے۔ جیسا کہ موجودہ نقشہ میں ظاہر ہو رہا ہے

کیا اس جگہ ہم وضو خانہ اور بیت الخلاء ، رہائش گاہ تعمیر کر سکتے ہیں۔ کیا نصف پلاٹ جو دوسرے کا حصہ ہے کیا ہم اس کو ایسے ہی چھوڑسکتے ہیں ؟؟ درخواست ہے کہ اس مسئلے کا جلد از جلد تحریری طور پر جواب ارشاد فرما دیں تاکہ مسجد کی تعمیر کاکام شروع کیا جاسکے۔

 

وضاحت:تنقیح سے معلوم ہوا کہ  عارضی مسجد بھی  ٹائل والی چھت کے ساتھ باقاعدہ تعمیر کی گئی تھی، ائیر کنڈیشن سمیت دیگر  سہولیات  بھی موجود تھیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر مسجد کےلیے کوئی پلاٹ وقف کیا گیا اور اس پر نماز بھی ادا  کی گئی تو اس جگہ کا  مسجد کے لیے وقف تام ہو جاتا ہے۔اس جگہ کو کسی اور مصرف میں استعمال کرنا جائز نہیں ۔البتہ اگر کسی جگہ کو وقف سمجھتے ہوئے نماز کے لیے خاص کرلیا(عارضی تعمیر کی) لیکن اس کا کچھ حصہ وقف میں شامل نہیں تھا  تو یہ زائد حصہ وقف شمار نہیں ہوگا ، لہذا سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق جبکہ پلاٹ مسجد کےلیے وقف تھا اور اس کے ایک حصہ پر نماز یں ادا کی جاتی رہی ہیں تو وہ جگہ مسجد کے حکم میں ہوگئی ہے۔ اس میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔ البتہ عارضی تعمیر کا وہ حصہ جو مسجد کے پلاٹ سے باہر تھا وہ نہ تو وقف تھا اور نہ ہی اس پر مستقل مسجد کی نیت سے تعمیرکی گئی ہے تو وہ مسجد  شرعی کے حکم میں نہیں ہے ۔ وہاں سے تعمیر  ہٹا کر اسے مالکوں کے حوالے کردیا جائے اور بقیہ حصے کو مسجد میں شامل کیا جائے۔مجوزہ نقشے میں ایسی تبدیلی کرلی جائے کہ وضوخانہ وغیرہ کسی دوسری طرف منتقل کردیا جائے اور  موجودہ مسجد کی تعمیر بھی مرکزی تعمیر میں شامل ہوجائے۔

حوالہ جات
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (1/ 747)
(إذا بنى مسجدا لا يزول ملكه) أي ملك المالك المجازي (عنه) أي عن المسجد وإنما قال بنى لأنه لو كان ساحة زال ملكه بمجرد الأمر بالصلاة فيها ذكر الأبد أو لا كما في المحيط (حتى يفرزه) أي يميزه (عن ملكه) من كل الوجوه (بطريقه) أي مع طريق المسجد بأن يجعل له سبيلا عاما يدخل فيه المسلمون منه لأنه لا يخلص لله تعالى إلا به (ويأذن) أي لكل الناس (بالصلاة) أي بكل الصلاة (فيه) أي في المسجد عند الطرفين لأنه تسليم وهو شرط عندهما فلو أذن لقوم أو للناس شهرا أو سنة مثلا لا يزول ملكه كما في القهستاني.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 355)
(ويزول ملكه عن المسجدوالمصلى) بالفعل و (بقوله جعلته مسجدا) عند الثاني (وشرط محمد) والإمام (الصلاة فيه) بجماعة وقيل: يكفي واحد وجعله في الخانية ظاهر الرواية.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 355)
(قوله: ويزول ملكه عن المسجد إلخ) اعلم أن المسجد يخالف سائر الأوقاف في عدم اشتراط التسليم إلى المتولي عند محمد وفي منع الشيوع عند أبي يوسف، وفي خروجه عن ملك الواقف عند الإمام وإن لم يحكم به حاكم كما في الدرر وغيره
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 348)
(قوله: فلا يجوز وقف مشاع يقسم إلخ) شمل ما لو استحق جزء من الأرض شائع فيبطل في الباقي؛ لأن الشيوع مقارن كما في الهبة بخلاف ما لو رجع الوارث في الثلثين بعد موت الواقف في مرضه وفي المال ضيق؛ لأنه شيوع طارئ، ولو استحق جزء معين لم يبطل في الباقي لعدم الشيوع.
الفتاوى الهندية (19/ 204)
رجل له ساحة لا بناء فيها أمر قوما أن يصلون فيها بجماعة فهذا على ثلاثة أوجه : أحدها إما أن أمرهم بالصلاة فيها أبدا نصا ، بأن قال : صلوا فيها أبدا .أو أمرهم بالصلاة مطلقا ونوى الأبد .ففي هذين الوجهين صارت الساحة مسجدا لو مات لا يورث عنه ، وإما أن وقت الأمر باليوم أو الشهر أو السنة .ففي هذا الوجه لا تصير الساحة مسجدا لو مات يورث عنه ، كذا في الذخيرة وهكذا في فتاوى قاضي خان .

عبدالقیوم   

         دارالافتاء جامعۃ الرشید

15/شعبان/1444            

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالقیوم بن عبداللطیف اشرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب