021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نماز اور روزوں کا فدیہ
79985روزے کا بیاننذر،قضاء اور کفارے کے روزوں کا بیان

سوال

میرے والد  اور والدہ دونوں کا انتقال ہو چکاہے ۔والد صاحب کی وراثت کی تقسیم بھی شریعت کے حساب سے ہو چکی ہے ۔والدہ کی تقسیمِ میراث کا ہم فتوٰی لے چکے ہیں،البتہ ہم وراثت سے ان کے فدیے کی رقم دینا چاہتے ہیں۔

 میرے والد کو فالج کا اٹیک ہوا تھااور وہ  تقریباً 10 دس سال بیماررہے، جس کی وجہ سے وہ نماز  اور روزہ  نہیں رکھ سکے۔ ان کے نمازوں اور روزوں کا فدیہ کیا ہوگا ۔اسی طرح میری والدہ شوگر کی مریض تھیں،کبھی کسی عذر یا کبھی جان بوجھ کر نمازیں چھوٹ جاتی تھیں تو زندگی بھر کی نماز کا فدیہ کیا ہوگا، شوگر کے مرض کی وجہ سے اکثر رمضان کے  روزے بھی چھوٹ جاتے تھے،تو اب شریعت کے حساب سے اسکا فدیہ کیا ہوگا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

میت کی طرف سے اگر نماز، روزے کے فدیے کی وصیت ہو تو ترکے سے فدیہ ادا کرنا  ورثاء کے ذمے واجب ہے، اگر وصیت نہ کی ہو تو  فدیہ ادا کرنا مستحب ہے۔ورثاء اپنی طرف سے ادا کر سکتے ہیں۔سارے ورثاء اگر بالغ ہوں تو سب کی رضا مندی سے میراث سے فدیہ ادا کیا جاسکتا ہے، لیکن اگر ورثاء میں کوئی وارث نابالغ ہو تو اس کی رضامندی کا اعتبار نہیں، اس کے حصے سے فدیہ ادا نہیں کیا جائے گا۔

ایک وقت کی نماز کا فدیہ نصف صاع ( تقریبا  سوا دو کلو  ) گندم ہے، صدقۃالفطر کے بقدر، اب یہ اختیار ہے کہ مستحق کو  چاہے تو گندم ہی ادا کر دی جائے یا پھر اس کی قیمت۔ایک دن میں پانچ  فرض نمازیں اور وتر کی نماز ملا کر کل چھ نمازوں کا  فدیہ ادا کیا جائے گا۔ایک روزے کے فدیہ کی مقدار بھی یہی ہے۔دنوں کا حساب لگا کر  نمازوں کا ،اور روزوں کی تعداد کے حساب سے روزوں کا فدیہ دیدیں۔

حوالہ جات
الدر المختار للحصفكي (2/ 77):
"ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة (وكذا حكم الوتر) والصوم، وإنما يعطى (من ثلث ماله)."
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 72):
"(قوله وعليه صلوات فائتة إلخ) أي بأن كان يقدر على أدائها ولو بالإيماء، فيلزمه الإيصاء بها وإلا فلا يلزمه ........وكذا حكم الصوم في رمضان إن أفطر فيه المسافر والمريض وماتا قبل الإقامة والصحة.(قوله يعطى) بالبناء للمجهول: أي يعطي عنه وليه: أي من له ولاية التصرف في ماله بوصاية أو وراثة فيلزمه ذلك من الثلث إن أوصى، وإلا فلا يلزم الولي ذلك لأنها عبادة فلا بد فيها من الاختيار."

  محمدفرحان

  دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

  23 / شعبان المعظم / 1444 ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد فرحان بن محمد سلیم

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب