79979 | حج کے احکام ومسائل | احرام اور اس کے ممنوعات کا بیان |
سوال
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ چھوٹے ناسمجھ بچے کوعمرہ کے لیے احرام پہنایا جائے گا یا نہیں؟بچے کے لیے احرام کی چادروں کو سنبھالنا مشکل ہوتا ہے تو کیا تہہ بند کی چادر میں الاسٹک کو سلائی کیا جاسکتا ہے۔ آج کل مارکیٹ میں بچوں کے دستیاب احرام میں بھی الاسٹک چادروں میں سلی ہوئی ملتی ہے وہ احرام بچوں کو پہنایا جاسکتا ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
چھوٹے نا سمجھ بچے کو بھی عمرہ کے لیے احرام پہنایا جائے گا اور اس کا ولی بچے کی طرف سے عمرہ کے افعال ادا کرے گا۔کوشش تو یہی ہونی چاہیے کہ احرام کی پابندیوں کا لحاظ کیا جائے اور جنایات سے بچا جائے لیکن بچہ کا احرام لازم نہیں ہوتا اور جنایت کی وجہ سے اس پر کوئی جزا بھی نہیں تو اگر الاسٹک والی چادر پہنادی جائے تو بھی کوئ حرج نہیں ہے
حوالہ جات
البناية شرح الهداية (4/ 155)
(لأن إحرام الصبي غير لازم لعدم الأهلية) ش: ولهذا لو أحصر لا يلزمه قضاء، ولا دم، ولو تناول شيئاً من محظوراته لا يلزمه شيء،
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق (4/ 247)
لأن إحرام الصبي غير لازم لعدم الأهلية فيمكنه الخروج بالشروع في غيره وإحرام العبد لازم فلا يمكنه ذلك ألا ترى أن الصبي لو أحصر وتحلل لا قضاء عليه ولا دم ولا يلزمه الجزاء بارتكاب محظوراته وفي المبسوط الصبي لو أحرم بنفسه ، وهو يعقل أو أحرم عنه أبوه صار محرما وينبغي له أن يجرده ويلبسه إزارا ورداء .
غنیۃ الناسک فی بغیۃ المناسک(ص138)
أما غير المميز فلا یصح أن يحرم بنفسه؛ لأنه لا يعقل ولايقدر التلفظ بالتلبية و هما شرطان في الإحرام، كما مر، و كذا لا يصح طوافه لإشتراط النية له أيضاً، بل يحرم له وليه، و الأقرب أولى... و ينبغي للولي أن يجرده قبل الإحرام و يلبسه إزارا و رداء، و إذا أحرم له ينبغي أن يجنبه من محظورات الإحرام ولو ارتكب محظوراً لا شيء عليهما، ويقضي به المناسك كلها، و ينوي عنه حين يحمله في الطواف و جاز النيابة عنه في كل شيء إلا في ركعتي الطواف فتسقط.
عبدالقیوم
دارالافتاء جامعۃ الرشید
20/شعبان المعظم/1444
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبدالقیوم بن عبداللطیف اشرفی | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب |