021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
موقوفہ جگہ کودوسرےوقف کے مصالح کے لئے بیچنا
80041وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

ایک شخص نے کسی ٹرسٹ کو ایک جگہ مسجدومدرسہ کے لئے وقف کی،مگر اس جگہ پر فی الحال آبادی نہ ہونے اور پانی،بجلی کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے تعمیر کرنا مشکل تھا۔کافی عرصہ بعد اس وقف جگہ کے بلکل قریب ایک مسجد بن گئی،جس کی وجہ سے اب اس مقام پر مسجد کی ضرورت نہیں رہی اور اس ٹرسٹ کو مسجد کے لئے ایک اور جگہ وقف ہوئی جہاں مسجد تعمیر ہورہی ہے اور بچوں کے پڑھنے کا انتظام بھی ہوگا۔

دریافت یہ کرنا ہے کہ پہلی وقف جگہ جہاں مسجد کی ضرورت نہیں اور نہ ہی ادارہ کے پاس فی الحال وسائل ہیں  تو اس  پہلی وقف شدہ جگہ کو فروخت کر کے اس کی رقم ادارہ وقف شدہ دوسری جگہ جہاں مسجد کی تعمیر جاری ہے صرف کرسکتا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ ایک بار وقف کے مکمل ہونے  سے موقوفہ زمین ہمیشہ کے لئے واقف کی ملکیت سے نکل کر اللہ تبارک وتعالیٰ کی ملکیت میں داخل ہوجاتی ہے،اس کے بعد اس کی خریدوفروخت کرنا ،تبدیل کرنا یا اس میں کسی قسم کا تصرف کرنا ہرگز جائز نہیں ہوتا،البتہ اگر واقف نے ضرورت کے وقت اس کوبیچنے کی اجازت دی ہو یا پہلی جگہ مسجدومدرسہ بنانے میں وقف کے منافع ومقاصد فوت ہوتے ہوں تو ایسی صورت میں اس کو بیچ کر دوسری جگہ کے وقف کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

لہٰذا مذکورہ صورت میں پہلی جگہ چونکہ مسجد تعمیر ہوگئی ہے اور دوسری مسجد کی ضرورت نہیں ہے اس لئے موقوفہ زمین کو بیچ کر اس کی رقم وقف شدہ دوسری جگہ جہاں مسجد تعمیر ہورہی ہے صرف کرنے کی گنجائش ہے۔

حوالہ جات
الفتاوى الهندية 2/ 400
 وليس للقيم ولاية الاستبدال إلا أن ينص له بذلك۔
ولو كان الوقف مرسلا لم يذكر فيه شرط الاستبدال لم يكن له أن يبيعها ويستبدل بها وإن كانت أرض الوقف سبخة لا ينتفع بها كذا في فتاوى قاضي خان وقد اختلف كلام قاضي خان ففي موضع جوزه للقاضي بلا شرط الواقف حيث رأى المصلحة فيه، وفي موضع منعه منه ولو صارت الأرض بحال لا ينتفع بها والمعتمد أنه يجوز للقاضي بشرط أن يخرج عن الانتفاع بالكلية وأن لا يكون هناك ريع للوقف يعمر به وأن لا يكون البيع بغبن فاحش كذا في البحر الرائق وشرط في الإسعاف أن يكون المستبدل قاضي الجنة المفسر بذي العلم والعمل كذا في النهر الفائق۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) 4/ 351
(قوله: فإذا تم ولزم) لزومه على قول الإمام بأحد الأمور الأربعة المارة عندهما بمجرد القول، ولكنه عند محمد لا يتم إلا بالقبض والإفراز والتأبيد لفظا، وعند أبي يوسف بالتأبيد فقط ولو معنى كماعلم مما مر (قوله: لا يملك) أي لا يكون مملوكا لصاحبه ولا يملك أي لا يقبل التمليك لغيره بالبيع ونحوه لاستحالة تمليك الخارج عن ملكه، ولا يعار، ولا يرهن لاقتضائهما الملك درر۔

محمدمصطفیٰ رضا

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

 4/رمضان/1444ھ

 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد مصطفیٰ رضا بن رضا خان

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب