021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قیمت خرید زیادہ بتا کر چیز مہنگی فروخت کرنا
79698خرید و فروخت کے احکامبیع فاسد ، باطل ، موقوف اور مکروہ کا بیان

سوال

میرا لیپ ٹاپ کی خریدوفروخت کا کام ہے۔  مثال کے طور پر لیپ ٹاپ کی مالیت50ہزار ہے، گاہک کو اگر کہا جائے کہ یہ 50  ہزار کا مجھے ملا ہے، آپ 51  ہزار دے دیں۔ تو گاہک 1000 منافع تو دور، 100  تک دینے کو راضی نہیں ہوتا۔ جب کہ اگر جھوٹ بولا جائے تو یہی گاہک 50ہزار مالیت کے لیپ ٹاپ پر 5  سے 10  ہزار تک زائد دینے کو بخوشی تیار ہوتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ منافع کتنا رکھا جائے؟ اور قیمت کیسے بتائی جائے کہ دکان دار کو اس کی محنت مشقت خواری پر جائز منافع بھی ملے، گاہک کو تشفی بھی ہو  اور کل قبر و حشر میں پکڑ بھی نہ ہو؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

خریدو فروخت سمیت کسیمعاملے میں بھی جھوٹ بولنا جائز نہیں ۔ احادیث مبارکہ میں جھوٹ بولنے پر سخت وعید آئی ہے ۔ یاد رہے کہ شریعت نے خریدو فروخت  کے دوران منافع اور قیمت متعین کرنے کی کوئی خاص حدمتعین نہیں کی  بلکہ اسے متعاقدین(فروخت کنندہ اور خریدار)کی باہمی رضامندی پر چھوڑا ہے۔ فروخت کنندہ اپنے تمام اخراجات  اور دیگر عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے مبیع کی قیمت میں کمی زیادتی کر سکتا ہے،اسی طرح خریدار بھی اپنی ضرورت اور سہولت کو مد نظر رکھتے ہوئے  بتائی گئی قیمت کے مطابق چیز خریدنے یا نہ خریدنے میں آزاد ہے۔

البتہ اگر فروخت کنندہ  کسی کمپنی کی بنائی ہوئی چیزفروخت کر رہا ہو اور کمپنی نے پابندی لگائی ہوئی ہو کہ  یہ چیز اس متعین قیمت سے زیادہ فروخت نہ کریں تو اس صورت میں متعین قیمت سے  زیادہ قیمت وصول کرنا اس معاہدے کی خلاف ورزی کی وجہ سے گناہ ہو گا  اور فروخت کنندہ طے شدہ قیمت پر بیچنے کا پابند ہوگا۔اسی طرح کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھاکر بہت زیادہ قیمت پر بیچنا یا بہت سستے میں خریدنا بھی کراہت سے خالی نہ ہوگا۔اگر کسی نے جھوٹ بول کر کوئی چیز مہنگی  فروخت کی ہو تو حقیقت پتہ چلنے پر  خریدار کو وہ چیز واپس کرنے کا اختیار ہو گا۔ 

حوالہ جات
روی الإمام البخاري رحمہ اللہ عن ‌أبي هريرة رضی اللہ عنہ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: آية المنافق ثلاث: ‌إذا ‌حدث ‌كذب، وإذا وعد أخلف، وإذا اؤتمن خان.( صحيح البخاري:رقم الحدیث 33)
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ:ويضم البائع إلى رأس المال أجر القصار والصبغ..... ويقول :قام علي بكذا، ولا ‌يقول :‌اشتريته؛ لأنه كذب.(الدرالمختار:5/135)
الثمن المسمى هو الثمن الذي يسميه ويعينه العاقدان وقت البيع بالتراضي، سواء كان مطابقاً للقيمة
 الحقيقية أو ناقصاً عنها أو زائداً عليها.( شرح مجلة الأحكام:المادہ،153)

محمد عمربن محمد الیاس

دارالافتاء جامعۃالرشید،کراچی

6شعبان،1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عمر بن محمد الیاس

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب