021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تحریری طلاق نامہ پر جبری دستخط کا حکم
80051طلاق کے احکامتحریری طلاق دینے کا بیان

سوال

میرا سوال یہ ہے کہ دس سال پہلے میرا نکاح میرے ماموں کی بیٹی سے ہوا تھا، ابھی تک رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ دونوں خاندان  میں تعلقات خراب ہونے شروع ہوگئے، لیکن تین ماہ بعد رخصتی ہوگئی تھی۔ کچھ عرصے تک سارے معاملات ٹھیک چلتے رہے، پھر میری بیوی بیمار ہوگئی۔ مَیں اس کا علاج کروا رہا تھا، لیکن ماموں نے کہا کے اسے ہمارے پاس بھجوا دو۔ حالانکہ ہماری کسی قسم کی کوئی لڑائی نہیں تھی۔ مَیں نے اپنی بیوی کو ان کے پاس بھجوادیا ۔ کچھ عرصے بعد ماموں کی اور گھر والوں کی کسی بات پر  اَن بَن ہوگئی، چنانچہ ماموں نے عدالت میں سامانِ جہیز واپسی کرنے کا دعویٰ دائر کر دیا۔

اس معاملے کی وجہ سے میرے والد غصے میں آگئے، اور مجھے کہنے لگے کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دو۔ مَیں نے ان سے کہا کہ مَیں ایسا نہیں کروں گا، جس پر انہیں غصہ آگیا، اور مجھے گالم گلوچ اور مارنے لگے۔ اور کہا کہ اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو مَیں تمہیں گھر سے نکال دوں گا ، اور دوبارہ کبھی تمہاری شکل نہیں دیکھوں گا ۔ نکل جاؤ میرے گھر سے!

اس کے بعد والد صاحب ایک اسٹامپ پیپر لے کر آئے، جس پر طلاقِ ثلاث لکھا ہوا تھا، مَیں نے اُس وقت بھی اسٹامپ پیپر پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا، لیکن والد صاحب نے پھر اسی طرح دھمکیاں دیں، اور کہا کہ گھر سے نکل جاؤ، تم ہمارے لیے مرگئے ہو، وغیرہ وغیرہ، تو مَیں نے اس پر دستخط کر دیے تھے، لیکن میری نیت اپنی بیوی کو طلاق دینے کی نہیں تھی۔ اس واقعہ کو تقریباً دس سال ہوگئے ہیں۔ لڑکی نے دوسری شادی بھی نہیں کی ہے۔ اور والد صاحب بھی ماموں سے بات چیت کرکے میری ماموں ذات کو گھر لانا چاہتے ہیں۔ برائے کرم، شریعت کی روشنی میں میری رہنمائی فرمائیں۔

وضاحت: سائل نے بذریعہ واٹس ایپ طلاق نامہ بھیجا ہے، اُس پر یہ جملہ لکھا ہوا ہے:

"اپنے مکمل ہوش و حواسِ خمسہ، بلا جبر و اکراہ، بلا ترغیبِ غیرے، بدرستگئی عقل، روبرو گواہان طلاقِ ثلاثہ (1) طلاق دیتا ہوں (2) طلاق دیتا ہوں (3) طلاق دیتا ہوں، اور اپنی زوجیت سے ہمیشہ کے لیے فارغ کرتا ہوں۔ آج کے بعد مسماۃ مذکوریہ (مقدس بی بی دختر صابر علی) جہاں چاہے عقدِ ثانی کرلیوے۔"

نیز سائل نے صرف دستخط   کیا تھا، زبانی طلاق نہیں دی تھی۔ اور سائل کو اُس وقت یہ ڈر تھا کہ اگر اُس نے طلاق نامے پر دستخظ نہیں کیا تو والد صاحب جو دھمکی دے رہے ہیں، وہ پوری بھی کردیں گے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ اکراہ کی حالت  میں لکھ کر طلاق دینے سے طلاق نہیں ہوتی، چاہے اکراہ تام ہو یا ناقص۔ اکراہِ ناقص کا مطلب یہ ہے کہ جبر کرنے والا کسی ایسی چیز کی دھمکی دے جو اس قدر غیر معمولی ہوکہ اُس کو مجبور کیے جانے والا شخص عام طور پر برداشت نہ کرتا ہو، بلکہ اس کی وجہ سے اپنی رضا کے خلاف مجبوراً آمادہ ہو جاتا ہو۔

اس قسم کے اکراہ کے ثابت ہونے کی چار شرائط ہیں:

1. مجبور کرنے والا شخص اس کام کی قدرت رکھتا ہو جس پر وہ مجبور کر رہا ہو۔ چاہے خود وہ یہ کام کرنے پر قادر ہو یا کسی کے ذریعے کروانے پر اس کو قدرت حاصل ہو۔

2. جس کو مجبور کیا جا رہا ہے، اُس کو کم از کم اس بات کا غالب گمان ہو کہ اگر اُس نے بات نہ مانی تو جو دھمکی دی جا رہی ہے، وہ پوری ہوکر رہے گی۔

3. دھمکی ایسی چیز کی ہو جس کی وجہ سے مجبور کیے جانے والے شخص کی رضامندی ختم ہوجاتی ہو۔

4. جس کام کے کرنے پر دھمکی دی جا رہی ہو، مجبور ہونے والا شخص وہ کام نہ کرنا چاہتا ہو۔

لہٰذا سوال میں ذکر کردہ صورت میں اگر آپ کو اس بات کا یقین تھا کہ والد صاحب گھر سے نکال دینے کی جو دھمکی دے رہے ہیں، اُن کی بات نہ ماننے کی صورت میں وہ اُس کو پوری بھی کر دیں گے، جبکہ والد صاحب کے گھر سے باہر نکلنے میں آپ اپنے لیے ایسا ناقابلِ برداشت حرج سمجھ رہے تھے کہ اس کی وجہ سے مجبور ہوکر آپ نے زبان سے کہے بغیر صرف طلاق نامے پر دستخط کیا تھا، تو ایسی صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

لیکن اگر یہ صورتحال نہ تھی، بلکہ آپ دل سے یہ سمجھتے تھے کہ والد صاحب ویسے ہی دھمکی دے رہے ہیں جیسے عموماً والدین دھمکیاں دیتے ہیں، لیکن اُس کو واقع نہیں کرتے، یا آپ کو یہ خوف تو تھا کہ والد صاحب ایسے ہی کریں گے، مگر گھر سے نکالے جانے کو آپ اپنے لیے حرج کا باعث نہیں سمجھ رہے تھے، تو ایسے میں یہ تینوں طلاقیں قضاءً واقع ہوگئی ہیں۔

حوالہ جات
بدائع الصنائع (7/175):
"وأما بيان أنواع الإكراه ، فنقول: نوع لا يوجب الإلجاء والاضطرار، وهو الحبس والقيد والضرب الذي لا يخاف منه التلف، وليس فيه تقدير لازم سوى أن يلحقه منه الاغتمام البين من هذه الأشياء، أعني: الحبس والقيد والضرب. وهذا النوع من الإكراه يسمى إكراها ناقصا."
رد المحتار (25/76):
"(كون الشيء المكره به ... موجبا غما يعدم الرضا)، وهذا أدنى مراتبه، وهو يختلف باختلاف الأشخاص؛ فإن الأشراف يغمون بكلام خشن، والأراذل ربما لا يغمون إلا بالضرب المبرح. ابن كمال."
الدر المختار (6/128):
"(وشرطه [الإكراه]) أربعة أمور: (قدرة المكره على إيقاع ما هدد به سلطانا أو لصا) أو نحوه. (و) الثاني: (خوف المكره) بالفتح (إيقاعه) أي إيقاع ما هدد به (في الحال) بغلبة ظنه، ليصير ملجأ. (و) الثالث: (كون الشيء المكره به متلفا نفسا أو عضوا أو موجبا عما يعدم الرضا) ... (و) الرابع: (كون المكره ممتنعا عما أكره عليه قبله).
البحر الرائق (3/264):
"لو أكره على أن يكتب طلاق امرأته، فكتب، لا تطلق؛ لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة، ولا حاجة هنا. كذا في الخانية. وفي البزازية: أكره على طلاقها، فكتب فلانة بنت فلان طالق، لم يقع."
رد المحتار (10/458):
"وفي البحر: أن المراد الإكراه على التلفظ بالطلاق، فلو أكره على أن يكتب طلاق امرأته، فكتب، لا تطلق؛ لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة، ولا حاجة هنا."

محمد مسعود الحسن صدیقی

دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

05/رمضان المبارک/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد مسعود الحسن صدیقی ولد احمد حسن صدیقی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب