021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کرایہ پر دی ہوئی دکان اور مکان پر زکوۃ کا حکم
80036.62زکوة کابیانان چیزوں کا بیان جن میں زکوة لازم ہوتی ہے اور جن میں نہیں ہوتی

سوال

 ایک گھر اور دکان  کرایہ پر دیے ہوئے ہیں ، اس سے آنے والا کرایہ ہر  ماہ گھر میں استعمال ہو جاتا ہے تو کیا اس پر زکوۃ ہوگی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کرایہ پر دی ہوئی دکان اور  مکان کی مالیت پر زکوٰة واجب نہیں ہوتی،البتہ حاصل شدہ  کرایہ میں سے جو کرایہ   گھر کے اخراجات میں استعمال ہونے سے بچ جائےاور وہ رقم خود  بقدرِ نصاب  ہو یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کو پہنچتی ہویا دیگر اموال  کے ساتھ مل کر نصاب کو پہنچ جائےتو جب اس پر سال بھی گرزجائے گا  تو  مالک پر ڈھائی فیصد زکوۃ ادا کرنا لازم ہوگا،   بصورتِ دیگر زکوۃ لازم نہ ہوگی۔

حوالہ جات
مجموعةالفتاوی:(کتابالزکوٰۃ،363/1)
لو اشتریٰ الرجل داراً او عبداً للتجارۃ ثم آجرہ یخرج من ان یکون للتجارۃ ولو اشتریٰ قدوراً من الصفر یمسکہا ویواجرہا لا یجب فیہا الزکاۃ کما لا یجب فی بیوت الغلۃ کذا فی فتاویٰ قاضی خان.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 19)
فأما إذا كان له الصنفان جميعا فإن لم يكن كل واحد منهما نصابا بأن كان له عشرة مثاقيل ومائة درهم فإنه يضم أحدهما إلى الآخر في حق تكميل النصاب عندنا.
العناية شرح الهداية (2/ 153)
(الزكاة واجبة على الحر العاقل البالغ المسلم إذا ملك نصابا ملكا تاما وحال عليه الحول).

عدنان اختر

دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی

۴؍رمضان المبارک  ؍۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عدنان اختر بن محمد پرویز اختر

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب