021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تجارت کی نیت سے لیے گئے پلاٹوں پر زکوۃ کا حکم
80037.62زکوة کابیانان چیزوں کا بیان جن میں زکوة لازم ہوتی ہے اور جن میں نہیں ہوتی

سوال

ایک گھر جسے کرایہ پردیا ہوا تھا،اس سے آنے والا کرایہ ہر مہینےگھر کے اخراجات میں استعمال ہوجاتاہے۔اب اسے  بیچ کر  تجارت کی نیت سے دو پلاٹ   لیے گئے ہیں، کیا ان پلاٹوں  پر زکوۃ  ہوگی جبکہ ان کو لیے ہوئے دو مہینے ہوئے ہیں اور کس قیمت کے اعتبار سے ہوگی ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 

گھر  بیچ کر اس رقم سے تجارت کی نیت سے  جو پلاٹ خریدے گئے ہیں ،ان پلاٹوں کی مالیت پر قیمت ِ فروخت کے لحاظ سے زکوۃ فرض ہوگی، یعنی مالک اگر پہلے سے صاحب ِ نصاب  نہیں ہے تو  سال پورا ہونے پر مذکورہ پلاٹوں کی مارکیٹ میں جو  قیمت ہوگی اس کے لحاظ سے ان کی مالیت پر بھی ڈھائی فیصد زکوۃ نکالنا لازم ہوگی ۔

حوالہ جات
فتح القدير للكمال ابن الهمام (2/ 168)
(ومن اشترى جارية للتجارة ونواها للخدمة بطلت عنها الزكاة) لاتصال النية بالعمل وهو ترك ٍالتجارة (وإن نواها للتجارة بعد ذلك لم تكن للتجارة حتى يبيعها فيكون في ثمنها زكاة) لأن النية لم تتصل بالعمل إذ هو لم يتجر فلم تعتبر، ولهذا يصير المسافر مقيما بمجرد النية، ولا يصير المقيم مسافرا إلا بالسفر.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 19)
فأما إذا كان له الصنفان جميعا فإن لم يكن كل واحد منهما نصابا بأن كان له عشرة مثاقيل ومائة درهم فإنه يضم أحدهما إلى الآخر في حق تكميل النصاب عندنا.

عدنان اختر

دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی

۴؍رمضان المبارک  ؍۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عدنان اختر بن محمد پرویز اختر

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب