80038.62 | زکوة کابیان | ان چیزوں کا بیان جن میں زکوة لازم ہوتی ہے اور جن میں نہیں ہوتی |
سوال
میرے پاس کچھ نقد رقم تھی جو میں نے اپنے بیٹے کو کاروبار کی خاطر دی تھی اور میرا بیٹا میرےزیرِ کفالت ہے پھر اس نے میری دی ہوئی رقم سے گاڑیاں خریدی اور بیچیں، کیا ان گاڑیوں پر زکوۃ ہوگی؟ جبکہ صرف ایک گاڑی پر سال گزرا ہوا ہے۔
تنقیح:سائل نے بذریعہ فون بتایا کہ والد صاحب کی طرف سے یہ رقم بطورِ ہدیہ(گفٹ) کاروبار کے لیے دی تھی اور ان پیسوں سے گاڑیاں کاروبار کی نیت سے ہی خریدی گئ تھیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
والد صاحب سے لی گئ رقم سے بیٹے نے تجارت کی نیت سے جو گاڑیاں خریدی ہیں، ان گاڑیوں کی مالیت اگر دیگر قابلِ زکوۃ اثاثوں کے ساتھ مل کر نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت ) کو پہنچتی ہو تو ان پر سال گزرنے کے بعد ڈھائی فیصد زکوۃ اداکرنا لازم ہوگی، نیز مالِ تجارت یعنی گاڑیوں کی مارکیٹ ویلیو کا اعتبارہوگا۔
حوالہ جات
الدر المختار للحصفكي (2/ 329)
(وقيمة العرض) للتجارة (تضم إلى الثمنين) لان الكل للتجارة وضعا وجعلا (و) يضم
(الذهب إلى الفضة) وعكسه بجامع الثمنية (قيمة)
فتح القدير :(كتاب الزكوة ،باب زكوة المال)) 2/166)
الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنة ما كانت إذا بلغت قيمتها نصابا من الورق والذهب۔۔۔وتشترط نية التجارة لأنه لما لم تكن للتجارة خلقة فلا يصير لها إلا بقصدها فيه۔
عدنان اختر
دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی
۴؍رمضان المبارک ؍۱۴۴۴ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عدنان اختر بن محمد پرویز اختر | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب |